*🌹فرض اور واجب میں فرق وتعریف🌹*
السلام علیکم ورحمت اللہ وبرکاتہ
سوال ہے کہ فرض اور واجب میں کیا فرق ہے اور دونوں کی تعریف کیا ہے علمائے کرام رہنمائ فرمائیں
*🌹سائل محمد سجاد حیدر🌹*
ا___________💠⚜💠__________
*وعلیکم السلام، ورحمتہ اللہ وبرکاتہ*
*📝الجوابـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ ⇩*
فرضِ اعتقادی: جودلیلِ قطعی سے ثابت ہو *(یعنی ایسی دلیل سے جس میں کوئی شبہہ نہ ہو)* اس کا انکار کرنے والا آئمۂ حنفیہ کے نزدیک مطلقاً کافر ہے اور اگر اسکی فرضیت دین ِ اسلام کا عام خاص پر روشن واضح مسئلہ ہو جب تو اس کے منکر کے کفر پر اِجماعِ قطعی ہے ایسا کہ جو اس منکر کے کفر میں شک کرے خود کافر ہے اور بہرحال جو کسی فرضِ اعتقادی کو بلا عذرِ صحیح شَرْعی قَصْداً ایک بار بھی چھوڑے فاسق و مرتکبِ کبیرہ و مستحقِ عذاب نار ہے جیسے نماز ، رکوع، سجود۔
فرضِ عملی: وہ جس کا ثبوت تو ایسا قطعی نہ ہو مگر نظرِ مجتہد میں بحکمِ دلائل شَرْعیہ جزم ہے کہ بے اس کے کیے آدمی بری الذمہ نہ ہو گا یہاں تک کہ اگر وہ کسی عبادت کے اندر فرض ہے تو وہ عبادت بے اس کے باطل و کالعدم ہوگی۔ اس کا بے وجہ انکار فسق و گمراہی ہے ،
*🔖ہاں اگر کوئی شخص کہ دلائلِ شَرْعیہ میں نظرکا اہل ہے دلیلِ شَرْعی سے اس کا انکار کرے تو کر سکتا ہے۔ جیسے آئمۂ مجتہدین کے اختلافات کہ ایک امام کسی چیز کو فرض کہتے ہیں اور دوسرے نہیں مَثَلاًحنفیہ کے نزدیک چوتھائی سر کا مسح وُضو میں فرض ہے اور شافعیہ کے نزدیک ایک بال کا اور مالکیہ کے نزدیک پورے سر کا ، حنفیہ کے نزدیک وُضو میں بسم اللہ کہنا اور نیّت سنت ہے اور حنبلیہ و شافعیہ کے نزدیک فرض اور ان کے سوا اور بہت سی مثالیں ہیں ۔اس فرضِ عملی میں ہر شخص اُسی کی پیروی کرے جس کا مقلّد ہے اپنے امام کے خلاف بلا ضرورت شَرْعی دوسرے کی پیروی جائز نہیں ۔*
📑واجبِ اعتقادی:
وہ کہ دلیلِ ظنی سے اس کی ضرورت ثابت ہو۔ فرضِ عملی و واجبِ عملی اسی کی دو قسمیں ہیں اور وہ انھیں دو میں *" منحصر۔*
*واجبِ عملی:'* وہ واجبِ اعتقادی کہ بے اس کے کیے بھی بری الذمہ ہونے کا احتمال ہو مگر غالب ظن اس کی ضرورت پر ہے اور اگر کسی عبادت میں اس کا بجا لانا درکار ہو تو عبادت بے اس کے ناقص رہے مگر ادا ہو جائے ۔مجتہد دلیلِ شَرْعی سے واجب کا انکار کر سکتا ہے اور کسی واجب کا ایک بار بھی قَصْداً چھوڑنا گناہِ صغیرہ ہے اور چند بار ترک کرنا کبیرہ۔
*📿سنّتِ مؤ کَّدہ: وہ جس کو حضورِ اقدس صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ہمیشہ کیا ہو ،البتہ بیانِ جواز کے واسطے کبھی ترک بھی فرمایا ہو یا وہ کہ اس کے کرنے کی تاکید فرمائی ہو مگر جانبِ ترک باِلکل مسدود نہ فرمادی ہو، اس کا ترک اساء ت اور کرنا ثواب اور نادراً ترک پر عتاب اور اس کی عادت پر استحقاقِ عذاب ۔*
🎗سنّتِ غیر مؤکَّدہ: وہ کہ نظرِ شرع میں ایسی مطلوب ہو کہ اس کے ترک کو ناپسند رکھے مگر نہ اس حد تک کہ اس پر وعیدِ عذاب فرمائے عام ازیں کہ حضور سیّد عالم صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس پر مداومت فرمائی یا نہیں،اس کا کرنا ثواب اور نہ کرنا اگرچہ عادۃً ہو موجبِ عتاب نہیں ۔
💝مُستَحب:
*وہ کہ نظرِ شرع میں پسند ہو مگر ترک پر کچھ ناپسندی نہ ہو، خواہ خود حضورِ اقدس صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اسے کیا یا اس کی ترغیب دی یا علمائے کِرام نے پسند فرمایا اگرچہ احادیث میں اس کا ذکر نہ آیا۔ اس کا کرنا ثواب اور نہ کرنے پر مطلقاً کچھ نہیں۔*
مُباح: وہ جس کا کرنا اور نہ کرنا یکساں ہو۔
حَرامِ قَطعی: یہ فرض کا مُقابِل ہے ،اس کا ایک بار بھی قَصْداً کرنا گناہِ کبیرہ و فِسق ہے اور بچنا فرض و ثواب۔
مَکروہ تَحْرِیمی: یہ واجب کا مقابل ہے اس کے کرنے سے عبادت ناقص ہو جاتی ہے اور کرنے والا گنہگار ہوتا ہے اگرچہ اس کا گناہ حرام سے کم ہے اور چند بار اس کا ارتکاب کبیرہ ہے۔
اِساءَت: جس کا کرنا بُرا ہو اور نادراً کرنے والا مستحقِ عِتاب اور اِلتزامِ فعل پر استحقاقِ عذاب۔ یہ سنّتِ مؤکدہ کے مقابل ہے۔
مَکروہِ تَنزِیہی :
*"✨ جس کا کرنا شرع کو پسند نہیں مگر نہ اس حد تک کہ اس پر وعیدِ عذاب فرمائے ۔یہ سنّتِ غیر مؤکدہ کے مقابل ہے۔*
♻خِلافِ اَولیٰ:
*" وہ کہ نہ کرنا بہتر تھا ، کیا توکچھ مضایقہ و عتاب نہیں ، یہ مستحب کا مقابل ہے۔ ان کے بیان میں عبارتیں مختلف ملیں گی مگر یہی عطرِ تحقیق ہے۔*
*( 📚بہار شریعت، جلد اول، حصہ دوم، طہارت کا بیان )*
*🌹واللّٰه تعالیٰ اعلم 🌹*
ا___________💠⚜💠__________
*✍🏻شرف قلم اسیر حضور اشرف العلماء ابو حنیفہ محمد اکبر اشرفی رضوی، مانخورد ممبئی*
*🗓 ۲۰ جون بروز جمعرات ۲۰۱۹ عیسوی* https://wa.me/+919167698708
ا___________💠⚜💠__________
*🔸فیضان غوث وخواجہ گروپ میں ایڈ کے لئے🔸* https://wa.me/+917800878771
ا___________💠⚜💠__________
*المشتـــہر؛*
*منتظمین فیضان غـوث وخـواجہ*
*گروپ محمد ایوب خان یارعلوی*
ا__________💠⚜💠___________
0 comments:
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔