ہفتہ، 10 اگست، 2019

زکاۃ کا بیان بہار شریعت سے

0 comments
*بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہٗ و نصلی علی رسولہ الکریم*
*(زکاۃ کا بیان > بہار شریعت سے)*
*قسط> اول*
ﷲ عزوجل فرماتا ہے:
*ومما رزقنہم ینفقون* 
اور متقی وہ ہیں کہ ہم نے جو انھیں دیا ہے، اس میں سے ہماری راہ میں خرچ کرتے ہیں۔
(پ۱، البقرۃ)

اورفرماتا ہے:
*خذ من اموالہم صدقۃ تطہرہم وتزکیہم بہا*
ان کے مالوں میں سے صدقہ لو، اس کی وجہ سے انھیں پاک اورستھرا بنا دو۔
(پ۱۱، التوبۃ)

اور فرماتا ہے:
*والذین ہم للزکوۃ فعلون*
اور فلاح پاتے وہ ہیں جو زکاۃ ادا کرتے ہیں۔
(پ۱۸، المؤمنون)

اور فرماتا ہے:
*وما انفقتم من شیء فہو یخلفہٗ و ہو خیر الرزقین*
اور جو کچھ تم خرچ کرو گے، ﷲ تعالی اس کی جگہ اور دے گا اور وہ بہتر روزی دینے والا ہے۔
(پ۲۲، سبا: ۳۹)

اورفرماتاہے:
*مثل الذین ینفقون اموالہم فی سبیل اللہ کمثل حبۃ انبتت سبع سنابل فی کل سنبلۃ مائۃ حبۃ واللہ یضعف لمن یشاء واللہ واسع علیم ۲۶۱ الذین ینفقون اموالہم فی سبیل اللہ ثم لا یتبعون ما"انفقوا منا ولا اذی لہم اجرہم عند ربہم ولا خوف علیہم ولا ہم یحزنون ۲۶۲ قول معروف ومغفرۃ خیر من صدقۃ یتبعہا اذی واللہ غنی حلیم ۲۶۳*
جو لوگ ﷲ (عزوجل) کی راہ میں خرچ کرتے ہیں ان کی کہاوت اس دانہ کی ہے جس سے سات بالیں نکلیں۔ ہر بال میں سو دانے اور ﷲ (عزوجل) جسے چاہتا ہے زیادہ دیتا ہے اور اﷲ (عزوجل) وسعت والا، بڑا علم والا ہے۔ جو لوگ ﷲ (عزوجل) کی راہ میں اپنے مال خرچ کرتے پھر خرچ کرنے کے بعد نہ احسان جتاتے، نہ اذیت دیتے ہیں، ان کے لیے ان کا ثواب ان کے رب کے حضور ہے اور نہ ان پر کچھ خوف ہے اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔ اچھی بات اور مغفرت اس صدقہ سے بہتر ہے جس کے بعد اذیت دینا ہو اور ﷲ (عزوجل) بے پرواہ حلم والا ہے۔ 
(پ۳، البقرۃ)

اور فرماتا ہے:
*لن تنالوا البر حتی تنفقوا مما تحبون ۬ وما تنفقوا من شیء فان اللہ بہ علیم* 
ہرگز نیکی حاصل نہ کرو گے جب تک اس میں سے نہ خرچ کرو جسے محبوب رکھتے ہو اور جو کچھ خرچ کروگے ﷲ (عزوجل) اسے جانتا ہے۔ 
(پ۴، ال عمرن)

اور فرماتا ہے:
*لیس البر ان تولوا وجوہکم قبل المشرق والمغرب ولکن البر من امن باللہ والیوم الاخر و الملئکۃ و الکتب و النبین واتی المال علی حبہ ذوی القربی و الیتمی و المسکین و ابن السبیل والسائلین و فی الرقاب واقام الصلوۃ واتی الزکوۃ والموفون بعہدہم اذا عہدوا والصبرین فی الباساء والضراء وحین الباس اولئک الذین صدقوا و اولئک ہم المتقون* 
نیکی اس کا نام نہیں کہ مشرق و مغرب کی طرف مونھ کر دو، نیکی تو اس کی ہے جو ﷲ (عزوجل) اور پچھلے دن اور ملائکہ و کتاب و انبیا پر ایمان لایا اور مال کو اس کی محبت پر رشتہ داروں اور یتیموں اور مسکینوں اور مسافر اور سائلین کو اور گردن چھٹانے میں دیا اور نماز قائم کی اور زکاۃ دی اور نیک وہ لوگ ہیں کہ جب کوئی معاہدہ کریں تو اپنے عہد کو پورا کریں اور تکلیف و مصیبت اور لڑائی کے وقت صبر کرنے والے وہ لوگ سچے ہیں اور وہی لوگ متقی ہیں۔
(پ۲، البقرۃ: ۱۷۷)

اور فرماتا ہے:
*ولا یحسبن الذین یبخلون بما اتىہم اللہ من فضلہ ہو خیرا لہم بل ہو شر لہم سیطوقون ما بخلوا بہ یوم القیمۃ*
جو لوگ بخل کرتے ہیں اس کے ساتھ جو ﷲ (عزوجل) نے اپنے فضل سے انھیں دیا۔ وہ یہ گمان نہ کریں کہ یہ ان کے لیے بہتر ہے بلکہ یہ ان کے لیے برا ہے۔ اس چیز کا قیامت کے دن ان کے گلے میں طوق ڈالا جائے گا جس کے ساتھ بخل کیا۔ 
(پ۴، ال عمرن)

اور فرماتا ہے۔
*والذین یکنزون الذہب والفضۃ ولا ینفقونہا فی سبیل اللہ فبشرہم بعذاب الیم ۳۴ یوم یحمی علیھا فی نارجہنم فتکوی بہا جباہہم وجنوبہم وظھورھم هذا ماکنزتم لانفسکم فذوقوا ماکنتم تکنزون ۳۵*
جو لوگ سونا اور چاندی جمع کرتے اور اسے ﷲ (عزوجل) کی راہ میں خرچ نہیں کرتے ہیں، انھیں دردناک عذاب کی خوشخبری سنا دو، جس دن آتش جہنم میں وہ تپائے جائیں گے اور ان سے ان کی پیشانیاں اور کروٹیں اور پیٹھیں داغی جائیں گی (اور ان سے کہاجائے گا) یہ وہ ہے جو تم نے اپنے نفس کے لیے جمع کیا تھا تو اب چکھو جو جمع کرتے تھے۔
(پ۱۰، التوبۃ)

*نیز زکاۃ کے بیان میں بکثرت آیات وارد ہوئیں جن سے اس کا مہتم بالشان ہونا ظاہر ہیں*
احادیث اس کے بیان میں بہت ہیں بعض ان میں سے یہ ہیں:
*حدیث* صحیح بخاری شریف میں ابوہریرہ رضی ﷲ تعالی عنہ سے مروی، رسول ﷲ صلی ﷲ تعالی علیہ وسلم فرماتے ہیں: ''جس کو ﷲ تعالی مال دے اور وہ اس کی زکاۃ ادا نہ کرے تو قیامت کے دن وہ مال گنجے سانپ کی صورت میں کر دیا جائے گا، جس کے سر پر دو چتیاں ہوں گی۔ وہ سانپ اس کے گلے میں طوق بنا کر ڈال دیا جائے گا پھر اس کی باچھیں پکڑے گا اور کہے گا میں تیرا مال ہوں، میں تیرا خزانہ ہوں۔'' اس کے بعد حضور (صلی ﷲ تعالی علیہ وسلم) نے اس آیت کی تلاوت کی(ولا یحسبن الذین یبخلون )
''صحیح البخاري''، کتاب الزکاۃ، باب إثم مانع الزکاۃ، الحدیث: ۱۴۰۳، ج۱، ص۴۷۴

*حدیث* حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا: کوئی روپیہ دوسرے روپیہ پر نہ رکھا جائے گا۔ نہ کوئی اشرفی دوسری اشرفی پر بلکہ زکاۃ نہ دینے والے کا جسم اتنا بڑا کر دیا جائے گا کہ لاکھوں کروڑوں جمع کیے ہوں تو ہر روپیہ جدا داغ دے گا۔
رواہ الطبرانی فی الکبیر ۱۲ منہ''الترغیب و الترہیب''، کتاب الصدقات، الترہیب من منع الزکاۃ، الحدیث: ۲۲، ج۱، ص۳۱۰

اسی کے مثل ترمذی و نسائی و ابن ماجہ نے عبدﷲ بن مسعود رضی ﷲ تعالی عنہ سے روایت کی۔
*حدیث*: احمد کی روایت ابوہریرہ رضی ﷲ تعالی عنہ سے یوں ہے، ''جس مال کی زکاۃ نہیں دی گئی، قیامت کے دن وہ گنجا سانپ (سانپ جب ہزار برس کا ہوتا ہے تو اس کے سر پر بال نکلتے ہیں اور جب دوہزاربرس کا ہوتا ہے، وہ بال گر جاتے ہیں۔یہ معنی ہیں گنجے سانپ کے کہ اتنا پرانا ہوگا) ہوگا، مالک کو دوڑائے گا، وہ بھاگے گا یہاں تک کہ اپنی انگلیاں اس کے مونھ میں ڈال دے گا۔
'المسند'' للإمام أحمدبن حنبل، مسندأبی ہریرۃ، الحدیث: ۱۰۸۵۷، ج۳، ص۶۲۶(یہ حدیث طویل ہے مختصرا ذکر کی گئی)

*حدیث:* صحیح مسلم شریف میں ابوہریرہ رضی ﷲ تعالی عنہ سے مروی، فرماتے ہیں صلی ﷲ تعالی علیہ وسلم : ''جو شخص سونے چاندی کا مالک ہو اور اس کا حق ادا نہ کرے تو جب قیامت کا دن ہوگا اس کے لیے آگ کے پتر بنائے جائیں گے اون پر جہنم کی آگ بھڑکائی جائے گی اور ان سے اس کی کروٹ اور پیشانی اور پیٹھ داغی جائے گی، جب ٹھنڈے ہونے پر آئیں گے پھر ویسے ہی کر دیے جائیں گے۔ یہ معاملہ اس دن کا ہے جس کی مقدار پچاس ہزار برس ہے یہاں تک کہ بندوں کے درمیان فیصلہ ہوجائے، اب وہ اپنی راہ دیکھے گا خواہ جنت کی طرف جائے یا جہنم کی طرف اور اونٹ کے بارے میں فرمایا: جو اس کا حق نہیں ادا کرتا، قیامت کے دن ہموار میدان میں لٹا دیا جائے گا اور وہ اونٹ سب کے سب نہایت فربہ ہو کر آئیں گے، پاؤں سے اسے روندیں گے اور مونھ سے کاٹیں گے، جب ان کی پچھلی جماعت گزر جائے گی، پہلی لوٹے گی اور گائے اور بکریوں کے بارے میں فرمایا: کہ اس شخص کو ہموار میدان میں لٹا ئینگے اور وہ سب کی سب آئیں گی، نہ ان میں مڑے ہوئے سینگ کی کوئی ہوگی، نہ بے سینگ کی، نہ ٹوٹے سینگ کی اورسینگوں سے ماریں گی اور کھروں سے روندیں گی 
''صحیح مسلم''، کتاب الزکاۃ، باب إثم مانع الزکاۃ، الحدیث: ۹۸۷، ص۴۹۱.

اور اسی کے مثل صحیحین میں اونٹ اور گائے اور بکریوں کی زکاۃ نہ دینے میں ابوذر رضی ﷲ تعالی عنہ سے مروی۔ (''صحیح البخاري''، کتاب الزکاۃ، باب زکاۃ البقر، الحدیث: ۱۴۶۰، ج۱، ص۴۹۲)
بخاری اپنی تاریخ میں اور امام شافعی و بزار و بیہقی ام المومنین صدیقہ رضی ﷲ تعالی عنہا سے راوی، کہ رسول ﷲ صلی ﷲ تعالی علیہ وسلم فرماتے ہیں: ''زکاۃ کسی مال میں نہ ملے گی، مگر اسے ہلاک کر دے گی۔''
''شعب الإیمان''، باب في الزکاۃ، فصل في الاستعفاف عن المسألۃ، الحدیث: ۳۵۲۲، ج۳، ص۲۷۳
(بعض ائمہ نے اس حدیث کے یہ معنی بیان کیے کہ زکاۃ واجب ہوئی اور ادا نہ کی اور اپنے مال میں ملائے رہا تو یہ حرام اس حلال کو ہلاک کر دے گا اور امام احمد نے فرمایا کہ معنے یہ ہیں کہ مالدار شخص مال زکاۃ لے تویہ مال زکاۃ اس کے مال کو ہلاک کر دے گا کہ زکاۃ تو فقیروں کے لیے ہے اور دونوں معنے صحیح ہیں) 
''الترغیب و الترہیب''، کتاب الصدقات، الترہیب من منع الزکاۃ،الحدیث:۱۸، ج۱، ص۳۰۹

*حدیث:* طبرانی نے اوسط میں بریدہ رضی ﷲ تعالی عنہ سے روایت کی، کہ حضور (صلی ﷲ تعالی علیہ وسلم) فرماتے ہیں: ''جو قوم زکاۃ نہ دے گی، ﷲ تعالی اسے قحط میں مبتلا فرمائے گا۔'
''المعجم الأوسط''، الحدیث: ۴۵۷۷، ج۳، ص۲۷۵

*حدیث:* طبرانی نے اوسط میں فاروق اعظم رضی ﷲ تعالی عنہ سے روایت کی، کہ حضور (صلی ﷲ تعالی علیہ وسلم) فرماتے ہیں: ''خشکی و تری میں جو مال تلف ہوتا ہے، وہ زکاۃ نہ دینے سے تلف ہوتا ہے۔
''الترغیب و الترہیب''، کتاب الصدقات، الترہیب من منع الزکاۃ،الحدیث:۱۶، ج۱، ص۳۰۸

*زکاۃ شریعت میں اﷲ (عزوجل) کے لیے مال کے ایک حصہ کا جو شرع نے مقرر کیا ہے، مسلمان فقیر کو مالک کر دینا ہے اور وہ فقیر نہ ہاشمی ہو، نہ ہاشمی کا آزاد کردہ غلام اور اپنا نفع اس سے بالکل جدا کر لے*
(درمختار)

*مسئلہ:* زکاۃ فرض ہے، اس کا منکر کافر اور نہ دینے والا فاسق اور قتل کا مستحق اور ادا میں تاخیر کرنے والا گنہگار و مردود الشہادۃ ہے۔
(عالمگیری)

*مسئلہ:* مباح کر دینے سے زکاۃ ادا نہ ہوگی، مثلا فقیر کو بہ نیت زکاۃ کھانا کھلا دیا زکاۃ ادا نہ ہوئی کہ مالک کر دینا نہیں پایا گیا، ہاں اگر کھانا دے دیا کہ چاہے کھائے یالے جائے تو ادا ہوگئی۔ یو ہیں بہ نیت زکاۃ فقیر کو کپڑا دے دیا یا پہنا دیا ادا ہوگئی۔
(درمختار)

*مسئلہ:* فقیر کو بہ نیت زکاۃ مکان رہنے کو دیا زکاۃ ادا نہ ہوئی کہ مال کا کوئی حصہ اسے نہ دیا بلکہ منفعت کا مالک کیا
(درمختار)

*مسئلہ:* مالک کرنے میں یہ بھی ضروری ہے کہ ایسے کو دے جو قبضہ کرنا جانتا ہو، یعنی ایسا نہ ہو کہ پھینک دے یا دھوکہ کھائے ورنہ ادا نہ ہوگی، مثلا نہایت چھوٹے بچہ یا پاگل کو دینا اور اگر بچہ کو اتنی عقل نہ ہو تو اس کی طرف سے اس کا باپ جو فقیر ہو یا وصی یا جس کی نگرانی میں ہے قبضہ کریں۔
(درمختار، ردالمحتار)

*مسئلہ:* زکاۃ واجب ہونے کے لیے چند شرطیں ہیں:
*(۱) مسلمان ہونا۔* 
کافر پر زکاۃ واجب نہیں یعنی اگر کوئی کافر مسلمان ہوا تو اسے یہ حکم نہیں دیا جائے گا کہ زمانہ کفر کی زکاۃ ادا کرے۔
(عامہ کتب) 
معاذ اﷲ کوئی مرتد ہوگیا تو زمانہ اسلام میں جو زکاۃ نہیں دی تھی ساقط ہوگئی
(عالمگیری)

*مسئلہ:* کافر دارالحرب میں مسلمان ہوا اور وہیں چند برس تک اقامت کی پھر دارالاسلام میں آیا، اگر اس کو معلوم تھا کہ مالدار مسلمان پر زکاۃ واجب ہے، تو اس زمانہ کی زکاۃ واجب ہے ورنہ نہیں اور اگر دارالاسلام میں مسلمان ہوا اور چند سال کی زکاۃ نہیں دی تو ان کی زکاۃ واجب ہے، اگرچہ کہتا ہو کہ مجھے فرضیت زکاۃ کا علم نہیں کہ دارالاسلام میں جہل عذر نہیں۔
(عالمگیری وغیرہ)

*(۲) بلوغ۔* 
*(۳) عقل*

نابالغ پر زکاۃ واجب نہیں اور جنون اگر پورے سال کو گھیرلے تو زکاۃ واجب نہیں اور اگر سال کے اول آخر میں افاقہ ہوتا ہے، اگرچہ باقی زمانہ جنون میں گذرتا ہے توواجب ہے، اور جنون اگر اصلی ہو یعنی جنون ہی کی حالت میں بلوغ ہوا تو اس کا سال ہوش آنے سے شروع ہوگا۔ یو ہیں اگر عارضی ہے مگر پورے سال کو گھیر لیا تو جب افاقہ ہوگا اس وقت سے سال کی ابتدا ہوگی۔
(جوہرہ، عالمگیری، ردالمحتار)

*مسئلہ:* بوہرے پر زکاۃ واجب نہیں، جب کہ اسی حالت میں پورا سال گزرے اور اگر کبھی کبھی اسے افاقہ بھی ہوتا ہے تو واجب ہے۔ جس پر غشی طاری ہوئی اس پر زکاۃ واجب ہے، اگرچہ غشی کامل سال بھر تک ہو۔
(عالمگیری، ردالمحتار)

*(۴) آزادہونا۔* 
غلام پر زکاۃ واجب نہیں، اگرچہ ماذون ہو (یعنی اس کے مالک نے تجارت کی اجازت دی ہو) یا مکاتب (یعنی وہ غلام جس کا آقا مال کی ایک مقدار مقرر کرکے یہ کہہ دے کہ اتنا ادا کردے تو آزاد ہے اور غلام اسے قبول بھی کرلے) یا ام ولد (یعنی وہ لونڈی جس کے بچہ پیدا ہوا اور مولی نے اقرار کیا کہ یہ میرا بچہ ہے) یا مستسعے (یعنی غلام مشترک جس کو ایک شریک نے آزاد کر دیا اور چونکہ وہ مالدار نہیں ہے، اس وجہ سے باقی شریکوں کے حصے کما کر پورے کرنے کا اسے حکم دیا گیا)
(عالمگیری وغیرہ)

*مسئلہ:* ماذون غلام نے جو کچھ کمایا ہے اس کی زکاۃ نہ اس پر ہے نہ اس کے مالک پر، ہاں جب مالک کو دے دیا تو اب ان برسوں کی بھی زکاۃ مالک اداکرے، جب کہ غلام ماذون دین میں مستغرق نہ ہو، ورنہ اس کی کمائی پر مطلقا زکاۃ واجب نہیں، نہ مالک کے قبضہ کرنے کے پہلے نہ بعد۔
(ردالمحتار)

*مسئلہ:* مکاتب نے جو کچھ کمایا اس کی زکاۃ واجب نہیں نہ اس پر نہ اس کے مالک پر، جب مالک کو دے دے اور سال گذر جائے، اب بشرائط زکاۃ مالک پر واجب ہوگی اور گذشتہ برسوں کی واجب نہیں
(ردالمحتار)

*(۵) مال بقدر نصاب اس کی ملک میں ہونا،* 
اگر نصاب سے کم ہے تو زکاۃ واجب نہ ہوئی۔ 
(تنویر، عالمگیری)

*(۶) پورے طور پر اس کا مالک ہو یعنی اس پر قابض بھی ہو۔* (المرجع السابق)
*مسئلہ:* جو مال گم گیا یا دریا میں گر گیا یا کسی نے غصب کر لیا اور اس کے پاس غصب کے گواہ نہ ہوں یا جنگل میں دفن کر دیا تھا اوریہ یاد نہ رہا کہ کہاں دفن کیا تھا یا انجان کے پاس امانت رکھی تھی اور یہ یاد نہ رہا کہ وہ کون ہے یا مدیون نے دین سے انکار کر دیا اور اس کے پاس گواہ نہیں پھر یہ اموال مل گئے، تو جب تک نہ ملے تھے، اس زمانہ کی زکاۃ واجب نہیں۔
(درمختار، ردالمحتار)

*مسئلہ:* اگر دین ایسے پر ہے جو اس کا اقرار کرتا ہے مگر ادا میں دیر کرتا ہے یا نادار ہے یا قاضی کے یہاں اس کے مفلس ہونے کا حکم ہو چکا یا وہ منکر ہے، مگر اس کے پاس گواہ موجود ہیں تو جب مال ملے گا، سالہائے گزشتہ کی بھی زکاۃ واجب ہے۔
(تنویر)

*مسئلہ:* چرائی کا جانور اگر کسی نے غصب کیا، اگرچہ وہ اقرار کرتا ہو تو ملنے کے بعد بھی اس زمانہ کی زکاۃ واجب نہیں۔(خانیہ)
*مسئلہ:* غصب کیے ہوئے کی زکاۃ غاصب پر واجب نہیں کہ یہ اس کا مال ہی نہیں، بلکہ غاصب پر یہ واجب ہے کہ جس کا مال ہے اسے واپس دے اور اگر غاصب نے اس مال کو اپنے مال میں خلط کر دیا کہ تمیز ناممکن ہو اور اس کا اپنا مال بقدر نصاب ہے تو مجموع پر زکاۃ واجب ہے۔
(ردالمحتار)

*مسئلہ:* ایک نے دوسرے کے مثلا ہزار روپے غصب کر لیے پھر وہی روپے اس سے کسی اور نے غصب کر کے خرچ کر ڈالے اور ان دونوں غاصبوں کے پاس ہزار ہزار روپے اپنی ملک کے ہیں تو غاصب اول پر زکاۃ واجب ہے دوسرے پر نہیں۔
(عالمگیری)

*مسئلہ:* شے مرہون (یعنی جو چیز گروی رکھی گئی ہے۔) کی زکاۃ نہ مرتہن (یعنی جس کے پاس چیز گروی رکھی گئی ہو) پر ہے، نہ راہن (یعنی گروی رکھنے والا) پر، مرتہن تو مالک ہی نہیں اور راہن کی ملک تام نہیں کہ اس کے قبضہ میں نہیں اور بعد رہن چھڑانے کے بھی ان برسوں کی زکاۃ واجب نہیں
(درمختار وغیرہ)

*ابھی جاری ہے ۔۔۔۔ان شاء اللہ جلد مکمل کیا جائے گا*
*نوٹ> نام نمبر کے ساتھ چھیڑ چھاڑ نا کریں، اور آگے بھی شیئر کریں*
⚡✨⚡✨⚡✨⚡
*حوالہ> بہار شریعت، حصہ پنجم، زکاۃ کا بیان*

*کتبہابو حنیفہ محمد اکبر اشرفی رضوی، مانخورد ممبئی*
*9167698708*

*بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہٗ و نصلی علی رسولہ الکریم*
*(زکاۃ کا بیان > بہار شریعت سے)*
*قسط> دوم*
*مسئلہ:* جو مال تجارت کے لیے خریدا اور سال بھر تک اس پر قبضہ نہ کیا تو قبضہ کے قبل مشتری پر زکاۃ واجب نہیں اور قبضہ کے بعد اس سال کی بھی زکاۃ واجب ہے۔
(درمختار، ردالمحتار)

*(۷) نصاب کا دین سے فارغ ہونا۔*
*مسئلہ:* نصاب کا مالک ہے مگر اس پردین ہے کہ ادا کرنے کے بعد نصاب نہیں رہتی تو زکاۃ واجب نہیں، خواہ وہ دین بندہ کا ہو، جیسے قرض، زرثمن (یعنی کسی خریدی گئی چیز کے دام) کسی چیز کا تاوان یا ﷲ عزوجل کا دین ہو، جیسے زکاۃ، خراج مثلا کوئی شخص صرف ایک نصاب کا مالک ہے اور دو سال گذر گئے کہ زکاۃ نہیں دی تو صرف پہلے سال کی زکاۃ واجب ہے دوسرے سال کی نہیں کہ پہلے سال کی زکاۃ اس پر دین ہے اس کے نکالنے کے بعد نصاب باقی نہیں رہتی، لہذا دوسرے سال کی زکاۃ واجب نہیں۔ یو ہیں اگر تین سال گذر گئے، مگرتیسرے میں ایک دن باقی تھا کہ پانچ درم اور حاصل ہوئے جب بھی پہلے ہی سال کی زکاۃ واجب ہے کہ دوسرے اور تیسرے سال میں زکاۃ نکالنے کے بعد نصاب باقی نہیں، ہاں جس دن کہ وہ پانچ درم حاصل ہوئے اس دن سے ایک سال تک اگر نصاب باقی رہ جائے تو اب اس سال کے پورے ہونے پر زکاۃ واجب ہوگی۔ یو ہیں اگر نصاب کا مالک تھا اور سال تمام پر زکاۃ نہ دی پھر سارے مال کو ہلاک کر دیا پھر اور مال حاصل کیا کہ یہ بقدر نصاب ہے، مگر سال اول کی زکاۃ جو اس کے ذمہ دین ہے اس میں سے نکالیں تو نصاب باقی نہیں رہتی تو اس نئے سال کی زکاۃ واجب نہیں اور اگر اس پہلے مال کو اس نے قصدا ہلاک نہ کیا، بلکہ بلا قصد ہلاک ہوگیا تو اس کی زکاۃ جاتی رہی، لہذا اس کی زکاۃ دین نہیں تو اس صورت میں اس نئے سال کی زکاۃ واجب ہے۔
(عالمگیری، ردالمحتار)

*مسئلہ:* اگر خود مدیون (یعنی مقروض) نہیں مگر مدیون کا کفیل (یعنی مقروض کا ضامن) ہے اور کفالت کے روپے نکالنے کے بعد نصاب باقی نہیں رہتی، زکاۃ واجب نہیں، مثلا زید کے پاس ہزار روپے ہیں اور عمرو نے کسی سے ہزار قرض لیے اور زید نے اس کی کفالت کی تو زید پر اس صورت میں زکاۃ واجب نہیں کہ زید کے پاس اگرچہ روپے ہیں مگر عمرو کے قرض میں مستغرق ہیں کہ قرض خواہ کواختیار ہے زید سے مطالبہ کرے اورروپے نہ ملنے پر یہ اختیار ہے کہ زید کوقید کرا دے تویہ روپے دین میں مستغرق ہیں، لہذا زکاۃ واجب نہیں اور اگرعمرو کی دس شخصوں نے کفالت کی اور سب کے پاس ہزار ہزار روپے ہیں جب بھی ان میں کسی پر زکاۃ واجب نہیں کہ قرض خواہ ہر ایک سے مطالبہ کر سکتا ہے اور بصورت نہ ملنے کے جس کوچاہے قید کرا دے
(ردالمحتار)

*مسئلہ:* جو دین میعادی ہو وہ مذہب صحیح میں وجوب زکاۃ کا مانع نہیں۔
(ردالمحتار) 
چونکہ عادۃ دین مہر کا مطالبہ نہیں ہوتا، لہذا اگرچہ شوہر کے ذمہ کتنا ہی دین مہر ہو جب وہ مالک نصاب ہے، زکاۃ واجب ہے
(عالمگیری) 
خصوصا مہر مؤخر جو عام طور پر یہاں رائج ہے جس کی ادا کی کوئی میعاد معین نہیں ہوتی، اس کے مطالبہ کا تو عورت کو اختیار ہی نہیں، جب تک موت یا طلاق واقع نہ ہو۔

*مسئلہ:* عورت کا نفقہ شوہر پر دین نہیں قرار دیا جائے گا جب تک قاضی نے حکم نہ دیا ہو یا دونوں نے باہم کسی مقدار پر تصفیہ نہ کر لیا ہو اور اگریہ دونوں نہ ہوں تو ساقط ہوجائے گا شوہر پر اس کا دینا واجب نہ ہوگا، لہذا مانع زکاۃ نہیں۔ عورت کے علاوہ کسی رشتہ دار کانفقہ اس وقت دین ہے جب ایک مہینہ سے کم زمانہ گزرا ہو یا اس رشتہ دار نے قاضی کے حکم سے قرض لیا اور اگر یہ دونوں باتیں نہیں تو ساقط ہے اورمانع زکاۃ نہیں۔
(عالمگیری، ردالمحتار)

*مسئلہ:* دین اس وقت مانع زکاۃ ہے جب زکاۃ واجب ہونے سے پہلے کا ہو اور اگر نصاب پرسال گزرنے کے بعد ہوا تو زکاۃ پر اس دین کا کچھ اثر نہیں
(ردالمحتار وغیرہ)

*مسئلہ:* جس دین کا مطالبہ بندوں کی طرف سے نہ ہو اس کا اس جگہ اعتبار نہیں یعنی وہ مانع زکاۃ نہیں مثلا نذر وکفارہ و صدقہ فطر و حج و قربانی کہ اگر ان کے مصارف نصاب سے نکالیں تو اگرچہ نصاب باقی نہ رہے زکاۃ واجب ہے، عشر و خراج واجب ہونے کے لیے دین مانع نہیں یعنی اگرچہ مدیون ہو، یہ چیزیں اس پر واجب ہو جائیں گی۔
(درمختار، ردالمحتار وغیرہما)

*مسئلہ:* جو دین اثنائے سال میں عارض ہوا یعنی شروع سال میں مدیون نہ تھا پھر مدیون ہوگیا پھر سال تمام پر علاوہ دین کے نصاب کا مالک ہوگیا تو زکاۃ واجب ہوگئی، اس کی صورت یہ ہے کہ فرض کرو قرض خواہ نے قرض معاف کر دیا تو اب چونکہ اس کے ذمہ دین نہ رہا اور سال بھی پورا ہو چکا ہے، لہذا واجب ہے کہ ابھی زکاۃ دے، یہ نہیں کہ اب سے ایک سال گزرنے پر زکاۃ واجب ہوگی اور اگر شروع سال سے مدیون تھا اور سال تمام پر معاف کیا تو ابھی زکاۃ واجب نہ ہوگی بلکہ اب سے سال گزرنے پر۔
(ردالمحتار وغیرہ)

*مسئلہ:* ایک شخص مدیون ہے اور چند نصاب کا مالک کہ ہر ایک سے دین ادا ہو جاتا ہے، مثلا اس کے پاس روپے اشرفیاں بھی ہیں، تجارت کے اسباب بھی، چرائی کے جانور بھی تو روپے اشرفیاں دین کے مقابل سمجھے اور اور چیزوں کی زکاۃ دے اور اگر روپے اشرفیاں نہ ہوں اور چرائی کے جانوروں کی چند نصابیں ہوں، مثلا چالیس بکریاں ہیں اور تیس گائیں اور پانچ اونٹ تو جس کی زکاۃ میں اسے آسانی ہو، اس کی زکاۃ دے اور دوسرے کو دین میں سمجھے تو اس صورت مذکورہ میں اگر بکریوں یا اونٹوں کی زکاۃ دے گا تو ایک بکری دینی ہوگی اور گائے کی زکاۃ میں سال بھرکا بچھڑا اور ظاہر ہے کہ ایک بکری دینا بچھڑا دینے سے آسان ہے، لہذا بکری دے سکتا ہے اور اگر برابر ہوں تو اسے اختیار ہے۔ مثلا پانچ اونٹ ہیں اورچالیس بکریاں دونوں کی زکاۃ ایک بکری ہے، اسے اختیار ہے جسے چاہے دین کے لیے سمجھے اور جس کی چاہے زکاۃ دے اور یہ سب تفصیل اس وقت ہے کہ بادشاہ کی طرف سے کوئی زکاۃ وصو ل کرنے والا آئے، ورنہ اگر بطور خود دینا چاہتا ہے تو ہر صورت میں اختیار ہے۔
(درمختار، ردالمحتار)

*مسئلہ:* اس پر ہزار روپے قرض ہیں اور اس کے پاس ہزار روپے ہیں اور ایک مکان اور خدمت کے لیے ایک غلام تو زکاۃ واجب نہیں، اگرچہ مکان و غلام دس ہزار روپے کی قیمت کے ہوں کہ یہ چیزیں حاجت اصلیہ سے ہیں اور جب روپے موجود ہیں تو قرض کے لیے روپے قرار دیے جائیں گے نہ کہ مکان و غلام
(عالمگیری)

*(۸) نصاب حاجت اصلیہ سے فارغ ہو۔*
*مسئلہ:* حاجت اصلیہ یعنی جس کی طرف زندگی بسر کرنے میں آدمی کو ضرورت ہے اس میں زکاۃ واجب نہیں، جیسے رہنے کا مکان، جاڑے گرمیوں میں پہننے کے کپڑے، خانہ داری کے سامان، سواری کے جانور، خدمت کے لیے لونڈی غلام، آلات حرب، پیشہ وروں کے اوزار، اہل علم کے لیے حاجت کی کتابیں ، کھانے کے لیے غلہ۔
(ہدایہ، عالمگیری، ردالمحتار)

*مسئلہ:* ایسی چیز خریدی جس سے کوئی کام کریگا اور کام میں اس کا اثر باقی رہے گا، جیسے چمڑا پکانے کے لیے مازو (ایک دوا کا نام) اور تیل وغیرہ اگر اس پر سال گزر گیا زکاۃ واجب ہے۔ یو ہیں رنگریز نے اجرت پر کپڑا رنگنے کے لیے کسم، زعفران خریدا تو اگر بقدر نصاب ہے اور سال گزر گیا زکاۃ واجب ہے۔ پڑیا وغیرہ رنگ کا بھی یہی حکم ہے اور اگر وہ ایسی چیز ہے جس کا اثر باقی نہیں رہے گا، جیسے صابون تو اگرچہ بقدر نصاب ہو اور سال گزر جائے زکاۃ واجب نہیں
(عالمگیری)

*مسئلہ:* عطر فروش نے عطر بیچنے کے لیے شیشیاں خریدیں، ان پر زکاۃ واجب ہے۔ 
(ردالمحتار)

*مسئلہ:* خرچ کے لیے روپے کے پیسے لیے تو یہ بھی حاجت اصلیہ میں ہیں۔ حاجت اصلیہ میں خرچ کرنے کے روپے رکھے ہیں تو سال میں جو کچھ خرچ کیا کیا اور جو باقی رہے اگر بقدر نصاب ہیں تو ان کی زکاۃ واجب ہے، اگرچہ اسی نیت سے رکھے ہیں کہ آئندہ حاجت اصلیہ ہی میں صرف ہوں گے اور اگر سال تمام کے وقت حاجت اصلیہ میں خرچ کرنے کی ضرورت ہے تو زکاۃ واجب نہیں۔
(ردالمحتار)

*مسئلہ:* اہل علم کے لیے کتابیں حاجت اصلیہ سے ہیں اور غیر اہل کے پاس ہوں، جب بھی کتابوں کی زکاۃ واجب نہیں جب کہ تجارت کے لیے نہ ہوں، فرق اتنا ہے کہ اہل علم کے پاس ان کتابوں کے علاوہ اگر مال بقدر نصاب نہ ہو تو زکاۃ لینا جائز ہے اور غیر اہل علم کے لیے ناجائز، جب کہ دو سو درم قیمت کی ہوں۔ اہل وہ ہے جسے پڑھنے پڑھانے یا تصحیح کے لیے ان کتابوں کی ضرورت ہو۔ کتاب سے مراد مذہبی کتاب فقہ و تفسیر وحدیث ہے، اگر ایک کتاب کے چند نسخے ہوں تو ایک سے زائد جتنے نسخے ہوں اگر دو سو درم کی قیمت کے ہوں تو اس اہل کو بھی زکاۃ لینا ناجائز ہے، خواہ ایک ہی کتاب کے زائد نسخے اس قیمت کے ہوں یا متعدد کتابوں کے زائد نسخے مل کر اس قیمت کے ہوں۔ 
(درمختار، ردالمحتار)

*مسئلہ:* حافظ کے لیے قرآن مجید حاجت اصلیہ سے نہیں اور غیر حافظ کے لیے ایک سے زیادہ حاجت اصلیہ کے علاوہ ہے یعنی اگر مصحف شریف دو سو درم قیمت کا ہو تو زکاۃ لینا جائز نہیں۔
(جوہرہ، ردالمحتار)

*مسئلہ:* طبیب کے لیے طب کی کتابیں حاجت اصلیہ میں ہیں، جب کہ مطالعہ میں رکھتا ہو یا اسے دیکھنے کی ضرورت پڑے، نحو و صرف و نجوم اوردیوان اور قصے کہانی کی کتابیں حاجت اصلیہ میں نہیں، اصول فقہ و علم کلام و اخلاق کی کتابیں جیسے احیاء العلوم و کیمیائے سعادت وغیرہما حاجت اصلیہ سے ہیں۔
(ردالمحتار)

*مسئلہ:* کفار اور بد مذہبوں کے رد اور اہل سنت کی تائید میں جو کتابیں ہیں وہ حاجت اصلیہ سے ہیں۔ یو ہیں عالم اگر بدمذہب وغیرہ کی کتابیں اس لیے رکھے کہ ان کا رد کریگا تو یہ بھی حاجت اصلیہ میں ہیں اور غیرعالم کو تو ان کا دیکھنا ہی جائز نہیں۔
*(۹) مال نامی ہونا*
یعنی بڑھنے والا خواہ حقیقۃ بڑھے یا حکما یعنی اگر بڑھانا چاہے تو بڑھائے یعنی اس کے یا اس کے نائب کے قبضہ میں ہو، ہر ایک کی دو صورتیں ہیں وہ اسی لیے پیدا ہی کیا گیا ہو اسے خلقی کہتے ہیں، جیسے سونا چاندی کہ یہ اسی لیے پیدا ہوئے کہ ان سے چیزیں خریدی جائیں یا اس لیے مخلوق تو نہیں، مگر اس سے یہ بھی حاصل ہوتا ہے، اسے فعلی کہتے ہیں۔ سونے چاندی کے علاوہ سب چیزیں فعلی ہیں کہ تجارت سے سب میں نمو ہوگا۔ (یعنی زیادتی ہوگی) سونے چاندی میں مطلقا زکاۃ واجب ہے، جب کہ بقدر نصاب ہوں اگرچہ دفن کر کے رکھے ہوں، تجارت کرے یا نہ کرے اور ان کے علاوہ باقی چیزوں پر زکاۃ اس وقت واجب ہے کہ تجارت کی نیت ہو یا چرائی پر چھوٹے جانور و بس، خلاصہ یہ کہ زکاۃ تین قسم کے مال پر ہے۔ 
(۱) ثمن یعنی سونا چاندی۔ 
(۲) مال تجارت۔ 
(۳) سائمہ یعنی چرائی پر چھوٹے جانور۔
(عامہ کتب)

*مسئلہ:* نیت تجارت کبھی صراحۃ ہوتی ہے کبھی دلالۃ صراحۃ یہ کہ عقد کے وقت ہی نیت تجارت کر لی خواہ وہ عقد خریداری ہو یا اجارہ، ثمن روپیہ اشرفی ہو یا اسباب میں سے کوئی شے دلالۃ کی صورت یہ ہے کہ مال تجارت کے بدلے کوئی چیز خریدی یا مکان جو تجارت کے لیے ہے اس کو کسی اسباب کے بدلے کرایہ پر دیا تو یہ اسباب اور وہ خریدی ہوئی چیز تجارت کے لیے ہیں اگرچہ صراحۃ تجارت کی نیت نہ کی۔ یو ہیں اگر کسی سے کوئی چیز تجارت کے لیے قرض لی تو یہ بھی تجارت کے لیے ہے، مثلا دو سو درم کامالک ہے اورمن بھر گیہوں قرض لیے تو اگر تجارت کے لیے نہیں لیے تو زکاۃ واجب نہیں کہ گیہوں کے دام انھیں دو سو سے مجرا کیے جائیں گے تو نصاب باقی نہ رہی اور اگر تجارت کے لیے لیے تو زکاۃ واجب ہوگی کہ ان گیہوں کی قیمت دو سو پر اضافہ کریں اور مجموعہ سے قرض مجرا کریں تو دو سو سالم رہے لہذا زکاۃ واجب ہوئی
(عالمگیری، درمختار، ردالمحتار)

*مسئلہ:* جس عقد میں تبادلہ ہی نہ ہو جیسے ہبہ، وصیت، صدقہ یا تبادلہ ہو مگر مال سے تبادلہ نہ ہو جیسے مہر، بدل خلع(یعنی وہ مال جس کے بدلے میں نکاح زائل کیا جائے) بدل عتق (یعنی وہ مال جس کے بدلے میں غلام یا لونڈی کو آزاد کیا جائے) ان دونوں قسم کے عقد کے ذریعہ سے اگر کسی چیز کا مالک ہوا تو اس میں نیت تجارت صحیح نہیں یعنی اگرچہ تجارت کی نیت کرے، زکاۃ واجب نہیں۔ یو ہیں اگر ایسی چیز میراث میں ملی تو اس میں بھی نیت تجارت صحیح نہیں۔
(عالمگیری)

*مسئلہ:* مورث کے پاس تجارت کامال تھا، اس کے مرنے کے بعد وارثوں نے تجارت کی نیت کی تو زکاۃ واجب ہے۔ یو ہیں چرائی کے جانور وراثت میں ملے، زکاۃ واجب ہے چرائی پر رکھنا چاہتے ہوں یا نہیں۔
(عالمگیری، درمختار)

*مسئلہ:* نیت تجارت کے لیے یہ شرط ہے کہ وقت عقد نیت ہو، اگرچہ دلالۃ تو اگر عقد کے بعد نیت کی زکاۃ واجب نہ ہوئی۔ یو ہیں اگررکھنے کے لیے کوئی چیز لی اور یہ نیت کی کہ نفع ملے گا تو بیچ ڈالوں گا توزکاۃ واجب نہیں۔
(درمختار)

*مسئلہ:* تجارت کے لیے غلام خریداتھا پھر خدمت لینے کی نیت کر لی پھر تجارت کی نیت کی تو تجارت کا نہ ہوگا جب تک ایسی چیز کے بدلے نہ بیچے جس میں زکاۃ واجب ہوتی ہے۔
(عالمگیری، درمختار)

*مسئلہ:* موتی اورجواہر پر زکاۃ واجب نہیں، اگرچہ ہزاروں کے ہوں۔ ہاں اگر تجارت کی نیت سے لیے تو واجب ہوگئی۔ 
(درمختار)

*مسئلہ:* زمین سے جو پیداوار ہوئی اس میں نیت تجارت سے زکاۃ واجب نہیں، زمین عشری ہو یاخراجی، اس کی ملک ہو یا عاریت یا کرایہ پر لی ہو، ہاں اگر زمین خراجی ہو اور عاریت یا کرایہ پر لی اور بیج وہ ڈالے جو تجارت کے لیے تھے تو پیداوار میں تجارت کی نیت صحیح ہے
(ردالمحتار)

*ابھی جاری ہے ۔۔۔۔ان شاء اللہ جلد مکمل کیا جائے گا*
*نوٹ> نام نمبر کے ساتھ چھیڑ چھاڑ نا کریں، اور آگے بھی شیئر کریں*
⚡✨⚡✨⚡✨⚡
*حوالہ> بہار شریعت، حصہ پنجم، زکاۃ کا بیان*

*کتبہابو حنیفہ محمد اکبر اشرفی رضوی، مانخورد ممبئی*
*9167698708*

*بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہٗ و نصلی علی رسولہ الکریم*
*(زکاۃ کا بیان > بہار شریعت سے)*
*قسط> سوم*
*مسئلہ:* مضارب (1) مال مضاربت سے جو کچھ خریدے، اگرچہ تجارت کی نیت نہ ہو، اگرچہ اپنے خرچ کرنے کے لیے خریدے، اس پر زکاۃ واجب ہے یہاں تک کہ اگر مال مضاربت سے غلام خریدے۔ پھر ان کے پہننے کو کپڑا اور کھانے کے لیے غلہ وغیرہ خریدا تو یہ سب کچھ تجارت ہی کے لیے ہیں اور سب کی زکاۃ واجب۔
1(مضاربت، تجارت میں ایک قسم کی شرکت ہے کہ ایک جانب سے مال ہو اور ایک جانب سے کام اور منافع میں دونوں شریک۔ کام کرنے والے کو مضارب اور مالک نے جو کچھ دیا اسے راس المال (مال مضاربت) کہتے ہیں) 
(درمختار، ردالمحتار)

*(۱۰) سال گزرنا،*
سال سے مراد قمری سال ہے یعنی چاند کے مہینوں سے بارہ مہینے۔ شروع سال اور آخر سال میں نصاب کامل ہے، مگر درمیان میں نصاب کی کمی ہوگئی تو یہ کمی کچھ اثر نہیں رکھتی یعنی زکاۃ واجب ہے۔
(عالمگیری)

*مسئلہ:* مال تجارت یا سونے چاندی کو درمیان سال میں اپنی جنس (سونا، چاندی تو مطلقا یہاں ایک ہی جنس ہیں۔ یوہیں ان کے زیور، برتن وغیرہ اسباب، بلکہ مال تجارت بھی انہیں کی جنس سے شمار ہوگا،اگرچہ کسی قسم کا ہو کہ اس کی زکاۃ بھی چاندی سونے سے قیمت لگا کر دی جاتی ہے) یا غیر جنس سے بدل لیا تو اس کی وجہ سے سال گزرنے میں نقصان نہ آیا اور اگر چرائی کے جانور بدل لیے تو سال کٹ گیا یعنی اب سال اس دن سے شمار کریں گے جس دن بدلا ہے۔ 
(عالمگیری)

*مسئلہ:* جو شخص مالک نصاب ہے اگر درمیان سال میں کچھ اور مال اسی جنس کا حاصل کیا تو اس نئے مال کا جدا سال نہیں، بلکہ پہلے مال کا ختم سال اس کے لیے بھی سال تمام ہے، اگرچہ سال تمام سے ایک ہی منٹ پہلے حاصل کیا ہو، خواہ وہ مال اس کے پہلے مال سے حاصل ہوا یا میراث وہبہ یا اور کسی جائز ذریعہ سے ملا ہو اور اگر دوسری جنس کا ہے مثلا پہلے اس کے پاس اونٹ تھے اور اب بکریاں ملیں تو اس کے لیے جدید سال شمار ہوگا۔
(جوہرہ)

*مسئلہ:* مالک نصاب کو درمیان سال میں کچھ مال حاصل ہوا اور اس کے پاس دو نصابیں ہیں اور دونوں کا جدا جدا سال ہے تو جو مال درمیان سال میں حاصل ہوا اسے اس کے ساتھ ملائے، جس کی زکاۃ پہلے واجب ہو مثلا اس کے پاس ایک ہزار روپے ہیں اور سائمہ کی قیمت جس کی زکاۃ دے چکا تھا کہ دونوں ملائے نہیں جائیں گے، اب درمیان سال میں ایک ہزار روپے اور حاصل کیے تو ان کا سال تمام اس وقت ہے جب ان دونوں میں پہلے کا ہو۔ 
(درمختار)

*مسئلہ:* اس کے پاس چرائی کے جانور تھے اور سال تمام پر ان کی زکاۃ دی پھر انھیں روپوں سے بیچ ڈالا اور اس کے پاس پہلے سے بھی بقدر نصاب روپے ہیں جن پر نصف سال گزرا ہے تو یہ روپے ان روپوں کے ساتھ نہیں ملائے جائیں گے، بلکہ ان کے لیے اس وقت سے نیا سال شروع ہوگا یہ اس وقت ہے کہ یہ ثمن کے روپے بقدر نصاب ہوں، ورنہ بالاجماع انھیں کے ساتھ ملائیں یعنی ان کی زکاۃ انھیں روپوں کے ساتھ دی جائے۔ 
(جوہرہ)

*مسئلہ:* سال تمام سے پیشتر اگر سائمہ کو روپے کے بدلے بیچا تو اب ان روپوں کو ان روپوں کے ساتھ ملالیں گے جو پیشتر سے اس کے پاس بقدر نصاب موجود ہیں یعنی ان کے سال تمام پر ان کی بھی زکاۃ دی جائے، ان کے لیے نیا سال شروع نہ ہوگا۔ یو ہیں اگر جانور کے بدلے بیچا تو اس جانور کو اس جانور کے ساتھ ملائے ،جو پیشتر سے اس کے پاس ہے اگر سائمہ کی زکاۃ دے دی پھر اسے سائمہ نہ رکھا پھر بیچ ڈالا تو ثمن کو اگلے مال کے ساتھ ملا دیں گے۔
(عالمگیری)

*مسئلہ:* اونٹ، گائے، بکری میں ایک کو دوسرے کے بدلے سال تمام سے پہلے بیچا تو اب سے ان کے لیے نیا سال شروع ہوگا۔ یو ہیں اگر اور چیز کے بدلے بہ نیت تجارت بیچا تو اب سے ایک سال گزرنے پر زکاۃ واجب ہوگی اور اگر اپنی جنس کے بدلے بیچا یعنی اونٹ کو اونٹ اور گائے کو گائے کے بدلے جب بھی یہی حکم ہے اور اگر بعد سال تمام بیچا تو زکاۃ واجب ہو چکی اور وہ اس کے ذمہ ہے۔
(جوہرہ)

*مسئلہ:* درمیان سال میں سائمہ کو بیچاتھا اورسال تمام سے پہلے عیب کی وجہ سے خریدار نے واپس کر دیا تو اگر قاضی کے حکم سے واپسی ہوئی تو نیا سال شروع نہ ہوگا، ورنہ اب سے سال شروع کیا جائے اوراگر ہبہ کر دیا تھا پھر سال تمام سے پہلے واپس کر لیا تو نیا سال لیا جائے گا، قاضی کے فیصلہ سے واپسی ہو یا بطور خود۔
(جوہرہ)

*مسئلہ:* اس کے پاس خراجی زمین تھی، خراج ادا کرنے کے بعد بیچ ڈالی تو ثمن کو اصل نصاب کے ساتھ ملا دیں گے۔ 
(عالمگیری)

*مسئلہ:* اس کے پاس روپے ہیں جن کی زکاۃ دے چکا ہے پھر ان سے چرائی کے جانور خریدے اور اس کے یہاں اس جنس کے جانور پہلے سے موجود ہیں تو ان کو ان کے ساتھ نہ ملائیں گے۔
(عالمگیری)

*مسئلہ:* کسی نے اسے چار ہزار روپے بطور ہبہ دیے اور سال پورا ہونے سے پہلے ہزار روپے اورحاصل کیے پھر ہبہ کرنے والے نے اپنے دیے ہوئے روپے حکم قاضی سے واپس لے لیے تو ان جدید روپوں کی بھی اس پر زکاۃ واجب نہیں جب تک ان پر سال نہ گزرلے۔
(عالمگیری) 
*مسئلہ:* کسی کے پاس تجارت کی بکریاں ہیں، جن کی قیمت دو سو درم ہے اور سال تمام سے پہلے ایک بکری مرگئی، سال پورا ہونے سے پہلے اس نے اس کی کھال نکال کرپکالی تو زکاۃ واجب ہے۔
(عالمگیری) 
یعنی جب کہ وہ کھال نصاب کو پورا کرے۔

*مسئلہ:* زکاۃ دیتے وقت یا زکاۃ کے لیے مال علیحدہ کرتے وقت نیت زکاۃ شرط ہے۔ نیت کے یہ معنی ہیں کہ اگر پوچھا جائے تو بلا تامل بتا سکے کہ زکاۃ ہے۔
(عالمگیری)

*مسئلہ:* سال بھر تک خیرات کرتا رہا، اب نیت کی کہ جو کچھ دیا ہے زکاۃ ہے تو ادا نہ ہوئی۔ 
(عالمگیری)

*مسئلہ:* ایک شخص کو وکیل بنایا اسے دیتے وقت تو نیت زکاۃ نہ کی، مگر جب وکیل نے فقیر کو دیا اس وقت مؤکل نے نیت کر لی ہوگئی۔
(عالمگیری)

*مسئلہ:* دیتے وقت نیت نہیں کی تھی، بعد کو کی تو اگر وہ مال فقیر کے پاس موجود ہے یعنی اسکی ملک میں ہے تو یہ نیت کافی ہے ورنہ نہیں۔
(درمختار)

*مسئلہ:* زکاۃ دینے کے لیے وکیل بنایا اوروکیل کو بہ نیت زکاۃ مال دیا مگر وکیل نے فقیر کو دیتے وقت نیت نہیں کی ادا ہوگئی۔ یو ہیں زکاۃ کا مال ذمی کو دیا کہ وہ فقیر کو دے دے اور ذمی کو دیتے وقت نیت کر لی تھی تو یہ نیت کافی ہے۔ 
(درمختار)

*مسئلہ:* وکیل کو دیتے وقت کہا نفل صدقہ یا کفارہ ہے مگر قبل اس کے کہ وکیل فقیروں کو دے، اس نے زکاۃ کی نیت کر لی تو زکاۃ ہی ہے، اگرچہ وکیل نے نفل یا کفارہ کی نیت سے فقیر کو دیا ہو۔
(درمختار)

*مسئلہ:* ایک شخص چند زکاۃ دینے والوں کا وکیل ہے اور سب کی زکاۃ ملا دی تو اسے تاوان دینا پڑے گا اور جو کچھ فقیروں کو دے چکا ہے وہ تبرع ہے یعنی نہ مالکوں سے اسکا معاوضہ پائے گا نہ فقیروں سے، البتہ اگر فقیروں کو دینے سے پہلے مالکوں نے ملانے کی اجازت دے دی تو تاوان اس کے ذمہ نہیں۔ یو ہیں اگر فقیروں نے بھی اسے زکاۃ لینے کا وکیل کیا اور اس نے ملا دیا تو تاوان اس پر نہیں مگراس وقت یہ ضرور ہے کہ اگر ایک فقیر کا وکیل ہے اور چند جگہ سے اسے اتنی زکاۃ ملی کہ مجموعہ بقدر نصاب ہے تو اب جو جان کر زکاۃ دے اس کی زکاۃ ادا نہ ہوگی یا چند فقیروں کا وکیل ہے اور زکاۃ اتنی ملی کہ ہر ایک کا حصہ نصاب کی قدر ہے تو اب اس وکیل کو زکاۃ دینا جائز نہیں مثلا تین فقیروں کا وکیل ہے اور چھ سو ۶۰۰ درم ملے کہ ہر ایک کا حصہ دو سو ۲۰۰ ہوا جو نصاب ہے اور چھ سو ۶۰۰ سے کم ملا تو کسی کو نصاب کی قدر نہ ملا اوراگر ہر ایک فقیر نے اسے علیحدہ علیحدہ وکیل بنایا تو مجموعہ نہیں دیکھا جائے گا، بلکہ ہر ایک کو جو ملا ہے وہ دیکھا جائے گا اور اس صورت میں بغیر فقیروں کی اجازت کے ملانا جائز نہیں اور ملا دے گا جب بھی زکاۃ ادا ہو جائیگی اور فقیروں کو تاوان دے گا اور اگر فقیروں کا وکیل نہ ہو تو اسے دے سکتے ہیں اگرچہ کتنی ہی نصابیں اس کے پاس جمع ہوگئیں۔
(ردالمحتار)

*مسئلہ:* چند اوقاف کے متولی کو ایک کی آمدنی دوسری میں ملانا جائز نہیں۔ یو ہیں دلال کو زر ثمن یا مبیع کا خلط (یعنی دلال کو خریدی گئی چیز کی قیمت یا خریدی گئی چیز کا ملانا) جائز نہیں۔ یو ہیں اگرچندفقیروں کے لیے سوال کیا تو جو ملا بے ان کی اجازت کے خلط کرنا جائز نہیں۔ یو ہیں آٹا پیسنے والے کو یہ جائز نہیں کہ لوگوں کے گیہوں ملا دے، مگر جہاں ملا دینے پر عرف جاری ہو تو ملا دینا جائز ہے اور ان سب صورتوں میں تاوان دے گا۔
(خانیہ)

*مسئلہ:* اگر مؤکلوں (وکیل کرنے والوں) نے صراحتہ ملانے کی اجازت نہ دی مگر عرف ایسا جاری ہوگیا کہ وکیل ملا دیا کرتے ہیں تو یہ بھی اجازت سمجھی جائے گی، جب کہ مؤکل (یعنی وہ شخص جو وکیل مقرر کرے۔ وکیل کرنے والا) اس عرف سے واقف ہو، مگر دلال کو خلط کی اجازت نہیں کہ اس میں عرف نہیں۔
(ردالمحتار)

*مسئلہ:* وکیل کو اختیار ہے کہ مال زکاۃ اپنے لڑکے یا بی بی کو دیدے جب کہ یہ فقیر ہوں اور اگر لڑکا نابالغ ہے تو اسے دینے کے لیے خود اس وکیل کا فقیر ہونا بھی ضروری ہے، مگر اپنی اولاد یا بی بی کو اس وقت دے سکتا ہے، جب مؤکل نے ان کے سوا کسی خاص شخص کو دینے کے لیے نہ کہہ دیا ہوورنہ انھیں نہیں دے سکتا
(ردالمحتار)

*مسئلہ:* وکیل کو یہ اختیار نہیں کہ خود لے لے، ہاں اگر زکاۃ دینے والے نے یہ کہہ دیا ہو کہ جس جگہ چاہو صرف کرو تو لے سکتا ہے۔
(درمختار)

*مسئلہ:* اگر زکاۃ دینے والے نے اسے حکم نہیں دیا، خود ہی اس کی طرف سے زکاۃ دے دی تو نہ ہوئی اگرچہ اب اس نے جائز کر دیا ہو۔
(ردالمحتار)

*مسئلہ:* زکاۃ دینے والے نے وکیل کو زکاۃ کا روپیہ دیا وکیل نے اسے رکھ لیا اور اپنا روپیہ زکاۃ میں دے دیا تو جائز ہے، اگر یہ نیت ہو کہ اس کے عوض مؤکل کا روپیہ لے لے گا اور اگر وکیل نے پہلے اس روپیہ کو خود خرچ کر ڈالا بعد کو اپنا روپیہ زکاۃ میں دیا تو زکاۃ ادا نہ ہوئی بلکہ یہ تبرع ہے اور مؤکل کو تاوان دے گا۔
(درمختار، ردالمحتار)

*مسئلہ:* زکاۃ کے وکیل کو یہ اختیار ہے کہ بغیر اجازت مالک دوسرے کو وکیل بنا دے۔
(ردالمحتار)

*مسئلہ:* کسی نے یہ کہا کہ اگر میں اس گھر میں جاؤں تو مجھ پر ﷲ (عزوجل) کے لیے ان سو روپوں کا خیرات کر دینا ہے پھرگیا اور جاتے وقت یہ نیت کی کہ زکاۃ میں دے دوں گا تو زکاۃ میں نہیں دے سکتا۔
(عالمگیری)
⚡✨⚡✨⚡✨⚡
*حوالہ> بہار شریعت، حصہ پنجم، زکاۃ کا بیان*

*کتبہابو حنیفہ محمد اکبر اشرفی رضوی، مانخورد ممبئی*
*9167698708*

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔