*🌹چاند د یکھنے کا بیان🌹*
*السلام علیکم ورحمتہ اللہ تعالی وبرکاتہ،
ﷲ عزوجل فرماتا ہے: *{ يَسْـَٔلُوْنَكَ عَنِ الْاَهِلَّةِ١ؕ قُلْ هِيَ مَوَاقِيْتُ لِلنَّاسِ وَ الْحَجِّ١ؕ }*
(پ۲، البقرۃ: ۱۸۹۔)
*اے محبوب ! تم سے ہلال کے بارہ میں لوگ سوال کرتے ہیں ، تم فرما دو وہ لوگوں کے کاموں اور حج کے لیے اوقات ہیں ۔*
📿 رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں : ’’روزہ نہ رکھو، جب تک چاند نہ دیکھ لو اور افطار نہ کرو، جب تک چاند نہ دیکھ لو اور اگر اَبر ہو تو مقدار پوری کرلو۔‘‘
*(📖 ’’صحیح البخاري‘‘، کتاب الصوم، باب قول النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم، إذا رأیتم الھلال فصوموا۔۔۔ إلخ،الحدیث: ۱۹۰۶، ج۱، ص۶۲۹۔)*
رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں : ’’چاند دیکھ کر روزہ رکھنا شروع کرو اور چاند دیکھ کر افطار کرو اور اگر اَبر ہو تو شعبان کی گنتی تیس ۳۰ پوری کرلو۔‘‘
*( ’’صحیح البخاري‘‘، کتاب الصوم، باب قول النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم، إذارأیتم ۔۔۔ إلخ، الحدیث: ۱۹۰۹، ج۱، ص۶۳۰۔ )*
🏷ابن عباس رضی ﷲ تعالیٰ عنہما سے راوی، ایک اعرابی نے حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کی، میں نے رمضان کا چاند دیکھا ہے۔ فرمایا: ’’تُو گواہی دیتا ہے کہ ﷲ (عزوجل) کے سوا کوئی معبود نہیں ۔‘‘ عرض کی، ہاں ۔ فرمایا: ’’تُو گواہی دیتا ہے کہ محمد ﷺ ﷲ (عزوجل) کے رسول ہیں ۔‘‘اُس نے کہا، ہاں ۔ ارشاد فرمایا: ’’اے بلال! لوگوں میں اعلان کر دو کہ کل روزہ رکھیں ۔‘‘
*’’سنن أبي داود‘‘، کتاب الصیام، باب في شھادۃ الواحد علی رؤیۃ ھلال رمضان، الحدیث: ۲۳۴۰، ج۲، ص۴۴۰۔*
ابو داود و دارمی ابن عمر رضی ﷲ تعالیٰ عنہما سے راوی، کہ لوگوں نے باہم چاند دیکھنا شروع کیا، میں نے حضورﷺ کو خبر دی کہ میں نے چاند دیکھا ہے، حضورﷺ نے بھی روزہ رکھا اور لوگوں کو روزہ رکھنے کا حکم فرمایا۔
*( ’’سنن أبي داود‘‘، کتاب الصیام، باب في شھادۃ الواحد علی رؤیۃ ھلال رمضان، الحدیث: ۲۳۴۲، ج۲، ص۴۴۱۔)*
📃 رسول ﷺ شعبان کا اس قدر تحفظ کرتے کہ اتنا اور کسی کا نہ کرتے پھر رمضان کا چاند دیکھ کر روزہ رکھتے اور اگر اَبر ہوتا توتیس دن پورے کر کے روزہ رکھتے۔
*(’سنن أبي داود‘‘، کتاب الصیام، باب إذا أغمي الشھر، الحدیث: ۲۳۲۵، ج۲، ص۴۳۴۔)*
ابی البختری سے مروی، کہتے ہیں ہم عمرہ کے لیے گئے، جب بطن نخلہ میں پہنچے تو چاند دیکھ کر کسی نے کہا تین رات کا ہے، کسی نے کہا دو رات کا ہے۔ ابن عباس رضی ﷲ تعالیٰ عنہما سے ہم ملے اور ان سے واقعہ بیان کیا، فرمایا: تم نے دیکھا کس رات میں ؟ ہم نے کہا، فلاں رات میں ، فرمایا :کہ رسول ﷺ نے اُس کی مدّت دیکھنے سے مقرر فرمائی، لہٰذا اس رات کا قرار دیا جائے گا جس رات کو تم نے دیکھا۔
*(’صحیح مسلم‘‘، کتاب الصیام، باب بیان أنہ لااعتبار بکبر الھلال وصفرہ۔۔۔ إلخ، الحدیث: ۱۰۸۸، ص۵۴۹۔)*
*مسائل فقہ*
پانچ مہینوں کا چاند دیکھنا، واجب کفایہ ہے
شعبان۔ رمضان۔ شوال۔ذیقعدہ۔ ذی الحجہ۔
*شعبان کا اس لیے کہ اگر رمضان کا چاند دیکھتے وقت اَبر یا غبار ہو تو یہ تیس پورے کرکے رمضان شروع کریں اور رمضان کاروزہ رکھنے کے لیے اور شوال کا روزہ ختم کرنے کے لیے اورذیقعدہ کا ذی الحجہ کے لیے (کہ وہ حج کا خاص مہینہ ہے۔) اور ذی الحجہ کا بقرعید کے لیے۔*
*(’الفتاوی الرضویۃ‘‘ ، ج۱۰ ص۴۴۹ ۔ ۴۵۱۔)*
شعبان کی انتیس ۲۹ کو شام کے وقت چاند دیکھیں دکھائی دے تو کل روزہ رکھیں ، ورنہ شعبان کے تیس ۳۰ دن پورے کر کے رمضان کا مہینہ شروع کریں ۔
*(’الفتاوی الہندیۃ‘‘، کتاب الصوم، الباب الثانی في رؤیۃ الہلال، ج۱، ص۱۹۷)*
🧾کسی نے رمضان یا عید کا چاند دیکھا مگر اس کی گواہی کسی وجہ شرعی سے ردکر دی گئی مثلاً فاسق ہے یا عید کا چاند اس نے تنہا دیکھا تو اُسے حکم ہے کہ روزہ رکھے، اگرچہ اپنے آپ عید کا چاند دیکھ لیا ہے اور اس روزہ کو توڑنا جائز نہیں ، مگر توڑے گا تو کفّارہ لازم نہیں *( ’’الدرالمختار‘‘، کتاب الصوم، ج۳، ص۴۰۴۔)* اور اس صورت میں اگر رمضان کا چاند تھا اور اُس نے اپنے حسابوں تیس روزے پورے کیے، مگر عید کے چاند کے وقت پھر اَبر یا غبار ہے تو اُسے بھی ایک دن اور رکھنے کا حکم ہے۔
*(عالمگیری، درمختار)*
تنہا اُس نے چاند دیکھ کر روزہ رکھا پھر روزہ توڑ دیا یا قاضی کے یہاں گواہی بھی دی تھی اور ابھی اُس نے اُس کی گواہی پر حکم نہیں دیا تھا کہ اُس نے روزہ توڑ دیا تو بھی کفّارہ لازم نہیں ، صرف اُس روزہ کی قضا دے اور اگر قاضی نے اُس کی گواہی قبول کر لی۔ اُس کے بعد اُس نے روزہ توڑ دیا تو کفّارہ لازم ہے اگرچہ یہ فاسق ہو
*(درمختار)*
جوشخص علم ہیأت جانتا ہے، اُس کا اپنے علم ہیٔات کے ذریعہ سے کہہ دینا کہ آج چاند ہوا یا نہیں ہوا کوئی چیز نہیں اگرچہ وہ عادل ہو، اگرچہ کئی شخص ایسا کہتے ہوں کہ شرع میں چاند دیکھنے یا گواہی سے ثبوت کا اعتبار ہے
*(عالمگیری)*
ہر گواہی میں یہ کہنا ضرور ہے کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ بغیر اس کے شہادت نہیں ، مگر اَبر میں رمضان کے چاند کی گواہی میں اس کہنے کی ضرورت نہیں ، اتنا کہہ دینا کافی ہے کہ میں نے اپنی آنکھ سے اس رمضان کا چاند آج یا کل یا فلاں دن دیکھا ہے۔ یوہیں اس کی گواہی میں دعویٰ اور مجلس قضا اور حاکم کا حکم بھی شرط نہیں ، یہاں تک کہ اگر کسی نے حاکم کے یہاں گواہی دی تو جس نے اُس کی گواہی سُنی اور اُس کو بظاہر معلوم ہوا کہ یہ عادل ہے اس پر روزہ رکھنا ضروری ہے، ا گرچہ حاکم کا حکم اُس نے نہ سُنا ہو مثلاً حکم دینے سے پہلے ہی چلا گیا
*(درمختار، عالمگیری)*
اَبر اور غبار میں رمضان کا ثبوت ایک مسلمان عاقل بالغ، مستور یا عادل شخص سے ہو جاتا ہے، وہ مرد ہو خواہ عورت، آزاد ہو یا باندی غلام یا اس پر تہمت زنا کی حد ماری گئی ہو، جب کہ توبہ کر چکا ہے۔
🗒عادل ہونے کے معنے یہ ہیں کہ کم سے کم متقی ہو یعنی کبائر گناہ سے بچتا ہو اور صغیرہ پر اصرار نہ کرتا ہو اور ایسا کام نہ کرتا ہو جو مروت کے خلاف ہو مثلاً بازار میں کھانا۔
*(درمختار، ردالمحتار)*
فاسق اگرچہ رمضان کے چاند کی شہادت دے اُس کی گواہی قابل قبول نہیں رہا یہ کہ اُس کے ذمّہ گواہی دینا لازم ہے یا نہیں ۔ اگر اُمید ہے کہ اُس کی گواہی قاضی قبول کرلے گا تو اُسے لازم ہے کہ گواہی دے۔
*مستور یعنی جس کا ظاہر حال مطابق شرع ہے، مگر باطن کا حال معلوم نہیں ، اُس کی گواہی بھی غیرِ رمضان میں قابلِ قبول نہیں ۔(درمختار)*
جس شخص عادل نے رمضان کا چاند دیکھا، اُس پر واجب ہے کہ اسی رات میں شہادت ادا کر دے، یہاں تک کہ اگر لونڈی یا پردہ نشین عورت نے چاند دیکھا تو اس پر گواہی دینے کے لیے اسی رات میں جانا واجب ہے۔ لونڈی کو اس کی کچھ ضرورت نہیں کہ اپنے آقا سے اجازت لے۔ *یوہیں آزاد عورت کو گواہی کے لیے جانا واجب، اس کے لیے شوہر سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں ، مگر یہ حکم اُ س وقت ہے جب اُس کی گواہی پر ثبوت موقوف ہو کہ بے اُس کی گواہی کے کام نہ چلے ورنہ کیا ضرورت۔ (درمختار، ردالمحتار)*
جس کے پاس رمضان کے چاند کی شہادت گزری، اُسے یہ ضرور نہیں کہ گواہ سے دریافت کرے تم نے کہاں سے دیکھا اور وہ کس طرف تھا اور کتنے اونچے پر تھا وغیرہ وغیرہ۔
*(عالمگیری وغیرہ)*
*مگر جب کہ اس کا بیان مشتبہ ہو تو سوالات کرے خصوصاً عید میں کہ لوگ خواہ مخواہ اس کا چاند دیکھ لیتے ہیں ۔*
تنہا امام (بادشاہِ اسلام) یا قاضی نے چاند دیکھا تو اُسے اختیار ہے، خواہ خود ہی روزہ رکھنے کا حکم دے یا کسی کو شہادت لینے کے لیے مقرر کرے اور اُس کے پاس شہادت ادا کرے۔
*(عالمگیری)*
گاؤں میں چاند دیکھا اوروہاں کوئی ایسا نہیں جس کے پاس گواہی دے تو گاؤں والوں کو جمع کر کے شہادت ادا کرے اور اگر یہ عادل ہے تو لوگوں پر روزہ رکھنا لازم ہے۔
*(عالمگیری)*
*کسی نے خود تو چاند نہیں دیکھا، مگر دیکھنے والے نے اپنی شہادت کا گواہ بنایا تو اُس کی شہادت کا وہی حکم ہے جو چاند دیکھنے والے کی گواہی کا ہے، جبکہ شہادۃ علی الشہادۃ کے تمام شرائط پائے جائیں*
*(عالمگیری وغیرہ)*
اگر مطلع صاف ہو تو جب تک بہت سے لوگ شہادت نہ دیں چاند کا ثبوت نہیں ہوسکتا، رہا یہ کہ اس کے لیے کتنے لوگ چاہیے یہ قاضی کے متعلق ہے، جتنے گواہوں سے اُسے غالب گمان ہو جائے حکم دیدے گا، مگر جب کہ بیرونِ شہر یا بلند جگہ سے چاند دیکھنا بیان کرتا ہے تو ایک مستور کا قول بھی رمضان کے چاند میں قبول کر لیا جائے گا۔
*(درمختار وغیرہ)*
*جماعتِ کثیرہ کی شرط اُس وقت ہے جب روزہ رکھنے یا عید کرنے کے لیے شہادت گزرے اور اگر کسی اور معاملہ کے لیے دو مرد یا ایک مرد اوردو عورتوں ثقہ کی شہادت گزری اورقاضی نے شہادت کی بنا پر حکم دے دیا تو اب یہ شہادت کافی ہے۔ روزہ رکھنے یا عیدکرنے کے لیے بھی ثبوت ہوگیا، مثلاً ایک شخص نے دوسرے پر دعویٰ کیا کہ میرا اس کے ذمہ اتنا دَین ہے اور اس کی میعادیہ ٹھہری تھی کہ جب رمضان آجائے تو دَین ادا کر دے گا اور رمضان آ گیا مگر یہ نہیں دیتا۔ مدعی علیہ (یعنی وہ شخص جس پر دعوی کیا جائے) نے کہا، بیشک اس کا دَین میرے ذمّہ ہے اور میعاد بھی یہی ٹھہری تھی، مگر ابھی رمضان نہیں آیا اس پر مدعی نے دو گواہ گزارے جنھوں نے چاند دیکھنے کی شہادت دی، قاضی نے حکم دے دیا کہ دَین ادا کر، تو اگرچہ مطلع صاف تھا اور دو ۲ ہی کی گواہیاں ہوئیں ، مگراب روزہ رکھنے اور عید کرنے کے حق میں بھی یہی دو گواہیاں کافی ہیں*
*(درمختار، ردالمحتار)*
یہاں مطلع صاف تھا، مگر دوسری جگہ ناصاف تھا، وہاں قاضی کے سامنے شہادت گزری، قاضی نے چاند ہونے کا حکم دیا، اب دو یا چند آدمیوں نے یہاں آکر جہاں مطلع صاف تھا، اس بات کی گواہی دی کہ فلاں قاضی کے یہاں دو شخصوں نے فلاں رات میں چاند دیکھنے کی گواہی دی اور اس قاضی نے ہمارے سامنے حکم دے دیا اور دعوے کے شرائط بھی پائے جاتے ہیں تویہاں کا قاضی بھی ان شہادتوں کی بنا پر حکم دیدے گا۔
*(درمختار)*
اگر کچھ لوگ آکر یہ کہیں کہ فلاں جگہ چاند ہوا، بلکہ اگر شہادت بھی دیں کہ فلاں جگہ چاند ہوا، بلکہ اگر یہ شہادت دیں کہ فلاں فلاں نے دیکھا، بلکہ اگر یہ شہادت دیں کہ فلاں جگہ کے قاضی نے روزہ یا افطار کے لیے لوگوں سے کہا یہ سب طریقے ناکافی ہیں ۔
*(درمختار، ردالمحتار)*
کسی شہر میں چاند ہوا اور وہاں سے متعدد جماعتیں دوسرے شہر میں آئیں اورسب نے اس کی خبر دی کہ وہاں فلاں دن چاند ہوا ہے اور تمام شہر میں یہ بات مشہور ہے اور وہاں کے لوگوں نے رویت کی بنا پر فلاں دن سے روزے شروع کیے تو یہاں والوں کے لیے بھی ثبوت ہوگیا۔ *(ردالمحتار)*
رمضان کی چاند رات کو اَبر تھا، ایک شخص نے شہادت دی اور اس کی بنا پر روزے کا حکم دے دیا گیا، اب عید کا چاند اگر بوجہ اَبر کے نہیں دیکھا گیا تو تیس روزے پورے کر کے عید کر لیں اور اگر مطلع صاف ہے تو عید نہ کریں ، مگر جبکہ دو عادلوں کی گواہی سے رمضان ثابت ہوا ہو۔
*(درمختار، ردالمحتار)*
مطلع ناصاف ہے تو علاوہ رمضان کے شوال و ذی الحجہ بلکہ تمام مہینوں کے لیے دو مرد یا ایک مرد اور دو عورتیں گواہی دیں اور سب عادل ہوں اور آزاد ہوں اور ان میں کسی پر تہمت زنا کی حد نہ قائم کی گئی ہو، اگرچہ توبہ کر چکا ہو اوریہ بھی شرط ہے کہ گواہ گواہی دیتے وقت یہ لفظ کہے میں گواہی دیتا ہوں ۔
*(عامۂ کتب)*
گاؤں میں دو شخصوں نے عید کا چاند دیکھا اور مطلع نا صاف ہے اور وہاں کوئی ایسا نہیں جس کے پاس شہادت دیں تو گاؤں والوں سے کہیں ، اگر یہ عادل ہوں تو لوگ عید کر لیں ۔
*(عالمگیری)*
تنہا امام یا قاضی نے عید کا چاند دیکھا تو انھیں عید کرنا یا عیدکا حکم دینا جائز نہیں ۔
*(درمختار وغیرہ)*
انتیسویں ۲۹ رمضان کو کچھ لوگوں نے یہ شہادت دی کہ ہم نے لوگوں سے ایک دن پہلے چاند دیکھا جس کے حساب سے آج تیس ۳۰ ہے تو اگر یہ لوگ یہیں تھے تو اب ان کی گواہی مقبول نہیں کہ وقت پر گواہی کیوں نہ دی اور اگر یہاں نہ تھے اور عادل ہوں تو قبول کر لی جائے۔
*(عالمگیری)*
رمضان کا چاند دکھائی نہ دیا، شعبان کے تیس ۳۰ دن پورے کر کے روزے شروع کر دیے، اٹھائیس ۲۸ ہی روزے رکھے تھے کہ عید کا چاند ہوگیا تو اگرشعبان کا چاند دیکھ کر تیس ۳۰ دن کا مہینہ قرار دیا تھا تو ایک روزہ رکھیں اور اگر شعبان کا بھی چاند دکھائی نہ دیا تھا، بلکہ رجب کی تیس ۳۰ تاریخیں پوری کر کے شعبان کا مہینہ شروع کیا تو دو روزے قضا کے رکھیں ۔
*(عالمگیری)*
دن میں ہلال دکھائی دیا زوا ل سے پہلے یا بعد، بہرحال وہ آئندہ رات کاقرار دیا جائے گا یعنی اب جو رات آئے گی اس سے مہینہ شروع ہوگا تو اگر تیسویں رمضان کے دن میں دیکھا تو یہ دن رمضان ہی کا ہے شوال کا نہیں اور روزہ پورا کرنا فرض ہے اور اگر شعبان کی تیسویں تاریخ کے دن میں دیکھا تو یہ دن شعبان کا ہے رمضان کا نہیں لہٰذا آج کا روزہ فرض نہیں ۔
*(درمختار، ردالمحتار)*
ایک جگہ چاند ہوا تو وہ صرف وہیں کے لیے نہیں ، بلکہ تمام جہان کے لیے ہے۔ مگر دوسری جگہ کے لیے اس کا حکم اُس وقت ہے کہ اُن کے نزدیک اُس دن تاریخ میں چاند ہونا شرعی ثبوت سے ثابت ہو جائے یعنی دیکھنے کی گواہی یا قاضی کے حکم کی شہادت گزرے یا متعدد جماعتیں وہاں سے آکر خبر دیں کہ فلاں جگہ چاند ہوا ہے اور وہاں لوگوں نے روزہ رکھا یا عیدکی ہے۔
*(درمختار)*
تار یا ٹیلیفون سے رویت ہلال نہیں ثابت ہوسکتی، نہ بازاری افواہ اور جنتریوں اور اخباروں میں چھپا ہونا کوئی ثبوت ہے۔ آج کل عموماً دیکھا جاتا ہے کہ انتیس ۲۹ رمضان کو بکثرت ایک جگہ سے دوسری جگہ تار بھیجے جاتے ہیں کہ چاند ہوا یا نہیں ، اگر کہیں سے تار آگیا بس لو عید آگئی یہ محض ناجائز و حرام ہے۔
تار کیا چیز ہے؟
اولاً تو یہی معلوم نہیں کہ جس کا نام لکھا ہے واقعی اُسی کا بھیجا ہوا ہے اور فرض کرو اُسی کا ہو تو تمھارے پاس کیا ثبوت اور یہ بھی سہی تو تار میں اکثر غلطیاں ہوتی ہی رہتی ہیں ، ہاں کا نہیں نہیں کا ہاں معمولی بات ہے اور مانا کہ بالکل صحیح پہنچا تو یہ محض ایک خبر ہے شہادت نہیں اور وہ بھی بیسوں واسطہ سے اگر تار دینے والا انگریزی پڑھا ہوا نہیں تو کسی اور سے لکھوائے گا معلوم نہیں کہ اُس نے کیا لکھوایا اُس نے کیا لکھا، آدمی کو دیا اُس نے تار دینے والے کے حوالہ کیا، اب یہاں کے تار گھر میں پہنچا تو اُس نے تقسیم کرنے والے کو دیا اُس نے اگر کسی اور کے حوالے کر دیا تو معلوم نہیں کتنے وسائط سے اُس کوملے اور اگر اسی کو دیا جب بھی کتنے واسطے ہیں پھر یہ دیکھیے کہ مسلمان مستور جس کا عادل و فاسق ہونا معلوم نہ ہو اُس تک کی گواہی معتبر نہیں اور یہاں جن جن ذریعوں سے تار پہنچا اُن میں سب کے سب مسلمان ہی ہوں ، یہ ایک عقلی احتمال ہے جس کا وجود معلوم نہیں ہوتا اور اگر یہ مکتوب الیہ صاحب بھی انگریزی پڑھے نہ ہوں تو کسی سے پڑھوائیں گے، اگر کسی کافر نے پڑھا تو کیا اعتبار اور مسلمان نے پڑھا تو کیا اعتماد کہ صحیح پڑھا۔ غرض شمار کیجیے تو بکثرت ایسی وجہیں ہیں جو تار کے اعتبار کو کھوتی ہیں فقہا نے خط کا تو اعتبار ہی نہ کیا اگرچہ کاتب کے دستخط تحریر پہچانتا ہو اور اُس پر اُس کی مہر بھی ہو کہ الخط یشبہ الخط والخاتم یشبہ الخاتم خط خط کے مشابہ ہوتا ہے اور مُہر مُہر کے۔ تو کجاتار۔
*واﷲ تعالیٰ اعلم۔*
ہلال دیکھ کر اُس کی طرف انگلی سے اشارہ کرنا مکروہ ہے، اگرچہ دوسرے کو بتانے کے لیے ہو۔
*(عالمگیری، درمختار)*
*(📙حوالہ: بہار شریعت، جلد اول، حصہ پنجم، چاند دیکھنے کا بیان)*
*والله اعلم بالصواب؛*
◆ــــــــــــــــ▪♦▪ــــــــــــــــ◆
*✍ازقلـــم:- ابــو حنـــیـــفـــہ محـــمـــد اکـبــــر اشــرفــی رضـوی، رکـن شـوریٰ سـنــــی تبـــلیــغـــی مشـــن، مانـخـــورد مـــمـــبـــئـــی*
*ببتاريخ ۲۶ شَعْبَانُ الْمُعَظَّم ٠۴۴١ھ*
*🔹آپ کا سوال ہمارا جواب گـروپ؛🔹*
*رابطہ؛ 9167698708*
◆ــــــــــــــــ▪♦▪ــــــــــــــــ◆
0 comments:
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔