جمعہ، 9 اگست، 2019

[زکوۃ کے مصارف اور حیلہ شرعی کے احکام]

0 comments
*✒ســـنــــی تــــبــــلیــــغـــی مـــشـــن📚* 

*[زکوۃ کے مصارف اور حیلہ شرعی کے احکام]*
‌‏   ◆‐‐‐‐‐‐‐‐‐‐‐••✦•✿ ✿•✦••‐‐‐‐‐‐‐‐‐‐‐‐◆
*الســـــــــــــــــــــــــــــــــــــوال*

*السلام علیکم ورحمتہ اللہ تعالیٰ وبرکاتہ*
*آپ لوگ کی بارگاہ میں یہ پوچھنا ہے کہ زکوٰۃ کا پیسہ کس طرح حیلہ کرواتے ہیں ,جس سے حیلہ کروانا ہے ان میں کون کونسی باتیں ہونا ضروری ہے*
*اگر ان کے پاس زکوٰۃ کی کچھ رقم جمع ہوگئی ہو تو کیا ان سے حیلہ کروا سکتے ہیں* 
*کس طرح انہیں بتانا ہوگا کہ حیلہ کرانا ہے*
*اسکا جواب تفصیل کے ساتھ عنایت فرمائیں ،بڑی مہربانی ہوگی,* 
*سائلہ:  سنی تبلیغی مشن خواتین گروپ*
‌‏   ◆‐‐‐‐‐‐‐‐‐‐‐••✦•✿ ✿•✦••‐‐‐‐‐‐‐‐‐‐‐‐◆
*وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ تعالی وبرکاتہ*
*الـــــــــــــــــــجـــــــــــــــــــواب*
*بعون الملک الوہاب*
*میری پیاری اسلامی بہن آپ نے یہ سوال کرکے مجھ پر احسان کیا ہے، حیلہ شرعی کے احکام بیشک آپ جانیں، لیکن اس سے پہلے یہ جانیں کہ اس زکوٰۃ فطرہ کے حقدار کون ہیں، میں اس لئے یہ بتانا ضروری سمجھ رہا ہوں کیونکہ جہاں نظر اٹھا کر دیکھتا ہوں ہر جگہ حیلہ شرعی کے بازار گرم ہیں، ایسے ایسے لوگ حیلہ شرعی کرنے بیٹھ جاتے ہیں جنکو یہ تک نہیں پتہ ہوتا ہے کہ مصارف زکوٰۃ کون لوگ ہیں، وہ کون ہیں جسے اللہ تعالی نے چنا ہے، بغورملاحظہ فرمائیں:*
*قال اللہ تعالی فی القرآن المجید:*
*اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَآءِ وَ الْمَسٰكِيْنِ وَ الْعٰمِلِيْنَ عَلَيْهَا وَ الْمُؤَلَّفَةِ قُلُوْبُهُمْ وَ فِي الرِّقَابِ وَ الْغٰرِمِيْنَ وَ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ وَ ابْنِ السَّبِيْلِ١ؕ فَرِيْضَةً مِّنَ اللّٰهِ١ؕ وَ اللّٰهُ عَلِيْمٌ حَكِيْمٌ*
*📙(پ۱۰، التوبۃ : ۶۰)*
*ترجمعہ :* _صدقات فقرا و مساکین کے لیے ہیں  اور انکے لیے جو اس کام پر مقرر ہیں  اور وہ جن کے قلوب کی تالیف مقصود ہے اور گردن چھڑانے میں  اور تاوان والے کے لیے اور ﷲ (عزوجل) کی راہ میں  اور مسافر کے لیے، یہ ﷲ (عزوجل) کی طرف سے مقرر کرنا ہے اور ﷲ (عزوجل) علم و حکمت والا ہے۔_

*زکاۃ کے مصارف سات* ہیں :فقیر ،مسکین، عامل ،رقاب ،غارم فی سبیل اللہ ،ابن سبیل۔ 
*📘بحوالہ’’الدرالمختار‘‘، کتاب الزکاۃ، باب المصرف، ج۳، ص۳۳۳ ۔ ۳۴۰۔حوالہ بہار شریعت، حصہ پنجم*
*میری عزیز بہن :* *_اب ان مصارف زکوٰۃ کے تفصیلات اگر آپ جاننا چاہتی ہیں تو بہار شریعت حصہ پنجم کا مطالعہ فرمائیں، من تو کررہا ہے اس پر لکھتے جاؤں، لیکن یہ میرا مشغلہ نہیں اور پوسٹ بھی کافی طویل ہو جائے گی، اور مجھے بہت باتوں کو لپیٹنا باقی ہیں ،مختصر عرض کرتا ہوں کہ "فقیر" وہ شخص ہے جس کے پاس کچھ ہو مگر نہ اتنا کہ نصاب کو پہنچ جائے یا نصاب کی قدر ہو تو اُس کی حاجتِ اصلیہ میں  مستغرق ہو، مثلاً رہنے کا مکان پہننے کے کپڑے خدمت کے لیے لونڈی غلام، علمی شغل رکھنے والے کو دینی کتابیں  جو اس کی ضرورت سے زیادہ نہ ہوں  جس کا بیان گزرا۔ یوہیں  اگر مدیُون ہے اور دَین نکالنے کے بعد نصاب باقی نہ رہے، تو فقیر ہے اگرچہ اُس کے پاس ایک تو کیا کئی نصابیں  ہوں ۔_* 
*📔(’’ردالمحتار‘‘، کتاب الزکاۃ، باب المصرف، ج۳، ص۳۳۳۔ وغیرہحوالہ: بہار شریعت حصہ پنجم)*
*_اور مسکین وہ ہے جس کے پاس کچھ نہ ہو یہاں  تک کہ کھانے اور بدنچھپانے کے لیے اس کا محتاج ہے کہ لوگوں  سے سوال کرے اور اسے سوال حلال ہے، فقیر کو سوال ناجائز کہ جس کے پاس کھانے اور بدنچھپانے کو ہو اُسے بغیر ضرورت و مجبوری سوال حرام ہے۔_* 
*📗(بحوالہ ’’الفتاوی الھندیۃ‘‘، کتاب الزکاۃ، الباب السابع في المصارف، ج۱، ص۱۸۷۔حوالہ: بہار شریعت حصہ پنجم)*
اور ایک بات فقیر اگر عالم ہو تو اُسے دینا جاہل کو دینے سے افضل ہے۔ 
*📕بحوالہ’’الفتاوی الھندیۃ‘‘، کتاب الزکاۃ، الباب السابع في المصارف، ج۱، ص۱۸۷۔حوالہ: بہار شریعت حصہ پنجم*
_*مگر عالم کو دے تو اس کا لحاظ رکھے کہ اس کا اعزاز مدّنظر ہو، ادب کے ساتھ دے جیسے چھوٹے بڑوں کو نذر دیتے ہیں  اور معاذﷲ عالمِ دین کی حقارت اگر قلب میں  آئی تو یہ ہلاکت اور بہت سخت ہلاکت ہے۔*_
*بہار شریعت, حصہ پنجم*
_*اور فی سبیلﷲ یعنی راہِ خدا میں  خرچ کرنا اس کی چند صورتیں ہیں ، مثلاً کوئی شخص محتاج ہے کہ جہاد میں جانا چاہتا ہے، سواری اور زادِ راہ اُس کے پاس نہیں تو اُسے مالِ زکاۃ دے سکتے ہیں  کہ یہ راہِ خدا میں  دینا ہے اگرچہ وہ کمانے پر قادر ہو یا کوئی حج کو جانا چاہتا ہے اور اُس کے پاس مال نہیں  اُس کو زکاۃ دے سکتے ہیں ، مگر اسے حج کے لیے سوال کرنا جائز نہیں ۔یا طالب علم کہ علمِ دین پڑھتا یا پڑھنا چاہتا ہے، اسے دے سکتے ہیں  کہ یہ بھی راہِ خدا میں  دینا ہے بلکہ طالب علم سوال کر کے بھی مالِ زکاۃ لے سکتا ہے، جب کہ اُس نے اپنے آپ کو اسی کام کے لیے فارغ کر رکھا ہو اگرچہ کسب پر قادر ہو۔ یوہیں ہر نیک بات میں  زکاۃ صَرف کرنا فی سبیل ﷲ ہے، جب کہ بطور تملیک (یعنی اسکو مالک بنایا)  ہو کہ بغیر تملیک زکاۃ ادا نہیں ہوسکتی۔*_
*📔(بحوالہ :درمختار حوالہ: بہار شریعت حصہ پنجم)*
بہت سے لوگ مالِ زکاۃ اسلامی مدارس میں بھیج دیتے ہیں ان کو چاہیےکہ متولّی مدرسہ کو اطلاع 
دیں کہ یہ مالِ زکاۃ ہے تاکہ متولّی اس مال کو جُدا رکھے اور مال میں نہ ملائے اور غریب طلبہ پر صَرف کرے،کسی کام کی اُجرت میں نہ دے ورنہ زکاۃ ادا نہ ہوگی
*📕بہار شریعت، حصہ پنجم*
*_زکاۃ ادا کرنے میں  یہ ضروری ہے کہ جسے دیں مالک بنا دیں ، اباحت کافی نہیں ، لہٰذا مالِ زکاۃ مسجد میں  صَرف کرنا یا اُس سے میّت کو کفن دینا یا میّت کا دَین ادا کرنا یا غلام آزاد کرنا، پُل، سرا، سقایہ ، سڑک بنوادینا، نہر یا کوآں  کھدوا دینا ان افعال میں خرچ کرنا یا کتاب وغیرہ کوئی چیز خرید کر وقف کر دینا ناکافی ہے۔_* 
*📘(بحوالہ :جوہرہ، تنویر، عالمگیری حوالہ : بہار شریعت،حصہ پنجم)*

        _*اب رہی بات حیلہ شرعی کے طریقے، تو یہ بعد میں جانیے، پہلے یہ جانیں آج کچھ لوگوں نے حیلہ شرعی کو کاروبار بنا رکھا ہے، کچھ لوگ حیلہ شرعی کے دکان کھول بیٹھے ہیں، جن کے من میں آرہا ہے حیلہ شرعی کر رہے ہیں، لاحول ولاقوة،*_ 
*_' تعلیم حفظ،  درس نظامی، ناظرہ،  دار الافتاء، و دیگر دینی تعلیم میں زکوٰۃ کے پیسے حیلہ کرکے بالکل لگا سکتے ہیں، لیکن اسکے لیے دو شرط ہیں, پہلا : ضرورت شدید ہ، دوسرا : مجبوری_*
_*یعنی کے اسکی  شدید ضرورت ہو اور ایسی مجبوری ہو کہ زکوٰۃ فطرہ کے علاوہ دیگر رقم کی کوئی گنجائش نا ہو، اگر ہو بھی تب بھی پوری نا ہوتی ہو، آج کل دیکھا جاتا ہے دینی مشاغل کے نام پر حیلہ کرکے وسیع عمارت تعمیرات کی جاتیں ہیں اور سال بھر بلا استثناء اس میں کرایہ دار رکھے جاتے ہیں یہ دینی کام تو ہوا نہیں بلکہ تجارت ہوئی ،اس کے بر خلاف کوئی دنیاوی کام  ہو جیسے دنیاوی  تعلیم کا کام یا کوئی اور دنیاوی ادارہ یا تفریحی تنظیم اس میں ہرگز حیلہ کرکے زکوة وغیرہ نہ لگائی جا ئے ورنہ سخت گناہ اور عذاب میں مبتلا ہونگے*_
*ماخوذ از📘 فتاوی بحر العلوم جلد دوم ص ۱۸۲,۱۸۶ ,۲۰۸*
_*زکوة فطرہ و دیگر صدقات واجبہ کو کسی تنظیم کو دیکر قوم کی ملکیت قرار دینا جائز نہیں اسلئے کہ ان کی ادائیگی میِں تملیک یعنی مستحق  زکوة کو مالک بنانا شرط ہے "در مختار" میں ہے*_ 
*"يشترط ان يكون الصرف تمليكا"* _*ناظم تنظیم کو مستحقین میں تقسیم  زکوة کا وکیل بنانا جائز ہے مگر مصارف کے علاوہ میں خرچ کرنا ناجائز وحرام ہوگا*_ 
*ماخوذ از📙 فتاوی فیض الر سول جلد اول ص۴۹۷ :*
*_کچھ تو ایسے بھی ہیں بنا حیلہ شرعی  زکوۃ مدرسے میں خرچ کر دیتے ہیں تو اب وہ خرچ زکوۃ میں شمار نہیں ہوسکتا کیونکہ ادائیگی کی شرائط موجود نہیں ہیں۔ ایسے حضرات دھیان دیں کہ جو کچھ خرچ کیا گیا وہ خرچ کرنے والے کی طرف سے ہوا ۔ اس پر لازم ہے کہ اس تمام رقم کا تاوان دے (یعنی اتنی رقم اپنے پاس سے ادا کرے)۔_*
*📗فیضان زکوة*

*_اب اگر حیلہ شرعی کرنے کے لیے مذکورہ  دونوں شرط پا لیے جائیں تو حیلہ شرعی کا طریقہ یہ ہے کہ کسی شرعی فقیر کو زکوۃ کا مالک بنادیں پھر وہ(آپ کے مشورے پر یاخود) اپنی طرف سے کسی نیک کام میں خرچ کرنے کے لئے دے دے ۔ تو ان شآء اللہ عزوجل دونوں کو ثواب ہوگا ۔ فقہائے کرام رحمہم اللہ تعالی ارشاد فرماتے ہیں،زکوۃ کی رقم مردے کی تجہیز وتکفين يا مسجدکی تعمير ميں صرف نہيں کر سکتے کہ تمليک فقير ( یعنی فقیر کو مالک کرنا)نہ پائی گئی ۔ اگر ان امور ميں خرچ کرنا چاہيں تو اس کا طریقہ يہ ہے کہ فقير کو ( زکوۃ کی رقم کا ) مالک کرديں اور وہ ( تعمير مسجد وغيرہ ميں )صرف کرے، اس طرح ثواب دونوں کو ہو گا ۔_*
*📔(بحوالہ :ردالمحتار،کتاب الزکوۃ،ج۳،ص۳۴۳ حوالہ: فیضان زکوة)*
_*اگر حیلہ کرنے کیلئے شرعی فقير کو زکوۃ دی جائے اور وہ لے کر رکھ لے تو اب اس سے نیک کاموں کیلئے جبرا نہيں لے سکتے کيونکہ اب وہ مالک ہوچکا اور اسے اپنے مال پر اختيار حاصل ہے۔*_
*📕(بحوالہ : فتاوی رضويہ مخرجہ ،ج۱۰، ص ۱۰۸ ،حوالہ: فیضان زکوة)*
_*اگر بھروسے کا کوئی آدمی نہ مل سکے تو اس کا ممکنہ طریقہ یہ ہے کہ اگر پانچ ہزار روپے زکوۃ بنتی ہو تو کسی شرعی فقیر کے ہاتھ کوئی چیز مثلاچند کلو گندم پانچ ہزار کی بیچی جائے اور اسے سمجھا دیا جائے کہ اس کی قیمت تمہیں نہیں دینی پڑے گی بلکہ ہم تمہیں رقم دیں گے اسی سے ادا کردینا ۔ جب وہ بیع قبول کرلے تو گندم اسے دے دی جائے ، اس طرح وہ آپ کا پانچ ہزار کا مقروض ہوگیا ۔اب اسے پانچ ہزار روپے زکوۃ کی مد میں دیں جب وہ اس پر قبضہ کر لے تو زکوۃ ادا ہوگئی ،پھر آپ گندم کی قیمت کے طور پر وہ پانچ ہزار واپس لے لیں ،اگر وہ دینے سے انکار کرے تو جبرا (زبر دستی)بھی لے سکتے ہیں کیونکہ قرض زبردستی بھی وصول کیا جاسکتا ہے ۔*_
*📘(بحوالہ : الدر المختار،کتاب الزکوۃ،ج۳، ص۲۲۶،ماخوذازفتاوی امجدیہ،ج۱،ص۳۸۸،حوالہ: فیضان زکوة)*
*_صدقہ فطرکے مصارف وہی ہیں جو زکوۃ کے ہیں۔_*
*📄(بحوالہ : عالمگیری ج۱ ص۱۹۴،حوالہ: فیضان زکوة)*
_*یعنی جن کو زکوۃ دے سکتے ہیں انہیں فطرہ بھی دے سکتے ہیں اور جن کو زکوۃ نہیں دے سکتے ان کو فطرہبھی نہیں دے سکتے۔ لہذا زکوۃ کی طرح صدقہ فطر کی رقم بھی حیلہ شرعی کے بعد مدارس وجامعات اور دیگر دینی کاموں میں استعمال کی جاسکتی ہے۔*_
*📙(بحوالہ: فتاوی امجدیہ ج۱ص۳۷۶ملخصا،حوالہ: فیضان زکوة)*
‌‏   ◆‐‐‐‐‐‐‐‐‐‐‐••✦•✿ ✿•✦••‐‐‐‐‐‐‐‐‐‐‐‐◆
*حـــوالـــہ: ☜* *_بہار شریعت، حصہ پنجم و فتاویٰ بحر العلوم جلد دوم ، و فیضان زکوة_*
‌‏   ◆‐‐‐‐‐‐‐‐‐‐‐••✦•✿ ✿•✦••‐‐‐‐‐‐‐‐‐‐‐‐◆
*واللہ تعالیٰ اعلم ورسولہ اعلم عزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم*
‌‏   ◆‐‐‐‐‐‐‐‐‐‐‐••✦•✿ ✿•✦••‐‐‐‐‐‐‐‐‐‐‐‐◆
*کتــبــہ: ☜*_*ابــو حـــنـــیـــفـــہ مـــحـــمـــد اکــــبــــر اشـــرفـــی رضـــوی، رکـــن شـــوریٰ ســـنــــی تــــبــــلیــــغـــی مـــشـــن، مانـــخـــورد مـــمـــبـــئـــی*_
*رابطہ نمبر* _*۹۱۶۷۶۹۸۷۰۸*_
*۹ رمضان المبارک، ۰۴۴۱؁ھ*
‌‏   ◆‐‐‐‐‐‐‐‐‐‐‐••✦•✿ ✿•✦••‐‐‐‐‐‐‐‐‐‐‐‐◆
*پوسٹ میں نام، مبائل نمبر یا کوئی بھی ایک لفظ ایڈیٹ (ترمیم) کرنے کی حماقت نا کریں*


0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔