ہفتہ، 10 اگست، 2019

ٹیوی، ویڈیو پر زبردست تحقیق

0 comments

#ٹی_وی_اورویڈیوسےمتعلق_زبردست_تحقیقی_فتوی
از : مفتی ابوبکر صدیق شاذلی صاحب قبلہ

#مووی_اوروڈیوکاشرعی_حکم
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
الصّلاة والسلام علیك یا رسول الله عزّ وجلّ وصلّى الله تعالى عليه وآله وسلم
کیافرماتے ہیں علماے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے میں کہ کیاٹیلی وژن پرعلما کاتبلیغ دین کے لیے خطاب کرنا درست ہے؟ 
نیز کیا ٹیلی وژن پرنظرآنے والی صورت انہی تصاویرِ ممنوعہ میں سے ہے کہ جن کی ممانعت کے بارے میں احادیث کریمہ وارد ہوئی ہیں؟
نیز کیا ان علما پرحکم فسق ہوگاجو ٹی وی پروگرامز میں شرکت کرتے ہیں اور وڈیو فلم بنواتے ہیں؟

الجواب بعون العلاّم الوهّاب اللّهم هداية الحقّ والصواب
اللّهم أرناحقائق الأشیاء کما هي هي. اللّهم إنّي أعوذ بك من همزات الشیاطین أن یحضرون بي.

ٹی وی اور وڈیو کا شرعی حکم بیان کرنے سے پہلے یہ عرض کر دینا مناسب سمجھتا ہوں کہ قوانین شرعیہ کی روسے اگرکوئی شخص خبرواحد(حدیث کی ایک قسم) میں بھی تأویل کرتے ہوئے کسی واجب کاانکارکرے تواس پرفسق اورگمراہی کافتوی دیناجائزنہیں ہے، جیساکہ خاتم المحققین حضرت علامہ محمد بن امین عابدین شامی رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ:
"وتارك العمل به إن كان مؤولاً لا يفسق ولا يضلل؛ لأنّ التأويل في مظانّه من سيرة السلف".
(ردالمحتار  ج۱  ص ۲۰۸  مطبوعہ: مکتبہ حقانیہ  ملتان)۔

ترجمہ:   اگرتاویل کرتے ہوئے واجب  پرعمل نہ کرے تو نہ تواسے فاسق قراردیاجائے گااورنہ ہی گمراہ ؛کیونکہ تأویل کے محل میں تأویل کرناسلف کاطریقہ ہے۔
جب خبر واحد میں تأویل کرکے عمل نہ کرنے والے کے بارے میں یہ حکم ہے تواگرکوئی کسی قیاسی مسئلے میں کسی ایک قیاس کوچھوڑکرکسی دوسرے قیاس پر عمل کرے تواسے کیونکرفاسق وگمراہ کہناجائزہوگا۔
الحمدللہ!
ہمارے بزرگانِ دین آپس میں کسی علمی مسئلے میں اختلاف ہوتاتھاتودلائل سے توایک دوسرے کے سامنے اپنامؤقف بیان کرتے تھے مگرکسی اجتہادی مسئلے میں اختلاف کی وجہ سے ایک دوسرے کی تفسیق نہیں کرتے تھے اورنہ ہی ایک دوسرے سے بغض رکھتے۔ راقم الحروف کومناظراسلام حضرت علامہ سعیداحمد اسعد دام ظلہ العالی نے اپنے استاد سابق صدرسنی دارالافتاء اہل سنت بریلی، حضرت علامہ مفتی سید افضل حسین شاہ  صاحب مونگیری رحمہ اللہ تعالیٰ کے حوالے سے بتایاکہ میرے استاذمکرم شاہ صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ نماز میں لاؤڈاسپیکرکے جوازکے قائل تھے۔جب کہ مفتی اعظم ہند رحمہ اللہ تعالیٰ اس کے برخلاف فتوی دیتے تھے۔

ایک مرتبہ کچھ لوگ مفتی اعظم ہند رحمہ اللہ تعالیٰ کی خدمت بابرکت میں حاضرہوئے اورعرض کی کہ حضورمفتی افضل حسین شاہ صاحب آپ کے مریدہیں مگرلاؤڈاسپیکرکے مسئلے میں آپ سے اختلاف رکھتے ہیں۔آپ انھیں منع کریں تومفتی اعظم ہند رحمہ اللہ تعالیٰ نے ارشادفرمایاکہ وہ عالم ہیں اوراختلاف کاحق رکھتے ہیں۔

یہی لوگ جب حضرت علامہ مفتی افضل حسین شاہ صاحب کی خدمت میں حاضرہوئے اوران سے کہاکہ آپ کویہ فتوی نہیں دیناچاہیے اور آپ اپنے پیرصاحب سے اختلاف نہ کریں اور آپ کایہ طرزِعمل غلط ہے۔ توجواباً آپ رحمہ اللہ تعالیٰ نے ارشادفرمایاکہ:’’ایں گناہیست درشہرشمانیزکنند‘‘ یعنی اگرعلمی مسئلے میں اختلاف رکھناغلط ہے تواس گناہ میں سارا شہر ہی گرفتار ہے۔ 

آپ نے فرمایاکہ ہم لوگ طریقت میں سرکارغوث پاک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مریدہیں اوروہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ حنبلی مذہب پرعمل کرتے تھے۔ جب کہ ہم لوگ حنفی ہیں ۔اس کامطلب یہ ہواکہ ہم سب لوگ سرکارغوث پاک رضی اللہ تعالیٰ سے اختلاف رکھتے ہیں۔لوگ آپ کایہ جواب سن خاموش ہوگئے۔  اس واقعہ سے ظاہرہواکہ اجتھادی مسائل میں اختلاف کی وجہ سے نہ توکسی کوگمراہ کہاجاسکتااورنہ ہی کسی کوفاسق بلکہ اس قسم کے مسائل میں اپنے رائے کوکسی پرتھوپابھی نہیں جاسکتا۔اسی وسعت قلبی کی واضح مثال محدث اعظم پاکستان حضرت علامہ مفتی سرداراحمد رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے فتاوی میں بھی دیکھی جاسکتی ہے۔ جب آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے لاؤڈاسپیکرپرنمازپڑھانے سے متعلق استفتاء کیاگیاتوباوجود یہ کہ آپ نمازمیں لاؤڈاسپیکر استعمال نہ فرماتے تھے مگرنہایت ہی وسعت قلبی کے ساتھ مجوزین کی رائے کوبھی بیان فرمایا اوراپنامؤقف بھی تحریرفرمایامگراس مبارک فتوی میں لاؤڈاسپیکرکے مجوزین میں سے نہ توکسی کوجھوٹافرمایااورنہ ہی کسی کوجاہل اورنہ ہی کسی کی تضلیل وتفسیق فرمائی۔ بلکہ اپنانظریہ بھی بیان فرماتے ہوئے نہایت ہی محتاط الفاظ استعمال فرمائے جن سے کسی طرح بھی ظاہرنہیں ہوتاکہ آپ اپنی رائے دیگرلوگوں پرمسلط کرناچاہتے ہوں۔امام اہل سنت اعلی ٰحضرت رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اس مسئلے کوبالکل واضح لفظوں میں بیان فرمایاکہ اجتھادی مسائل میں اختلاف کی وجہ سے ایک دوسرے کی تضلیل وتفسیق توکجاایک دوسرے پرانکارکرنابھی ضروری  نہیں۔ آپ رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ:
’’علماء  محتاطین توایسے مسائل اجتھادیہ میں انکاربھی ضروری اورواجب نہیں جانتے نہ کہ عیاذاً باللہ نوبت تا بہ تضلیل و اکفار‘‘
(فتاوی رضویہ  ج۳  ص ۷۶۵  مطبوعہ: مکتبہ رضویہ  کراچی)

معلوم ہوا، جدیدمسائل میں اختلاف کی وجہ سے نہ توکسی کوگمراہ کہناجائزہے اورنہ ہی فاسق۔یہی حکم وڈیواورٹی وی کے جائزپروگرامزکے سنی مجوزین کے بارے میں ہے۔ انہیں جائزوڈیواورٹی وی پروگرامزمیں شرکت کی وجہ سے گمراہ یافاسق کہناسراسر غلط اورفقہاء کرام کی تصریحات کے خلاف ہے۔

جہاں تک وڈیواورٹی وی کے جائز پروگرامز کے شرعی حکم کاتعلق ہے تویہ ایک جدیدمسئلہ ہے جیساکہ گذشتہ سطورمیں ذکرکیاگیا۔یہی وجہ ہے کہ اسلاف کرام رحمہم اللہ تعالیٰ کی کتب میں اس کاذکرنہیں ملتا۔مگراسلام دیگرمذاہب کی طرح کوئی جامدمذہب نہیں ہے بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے قیامت تک پیداہونے والے تمام انسانوں  کے لئے سچااورآخری مذہب ہے۔ اس کی تعلیمات ایسی ہمہ گیر ہیں جوحیات انسانی کے ہرشعبہ میں ہرزمانے میں تمام انسانوں کے لئے کامل رہنماہیں۔ مجتہدین کرام رحمہم اللہ تعالیٰ نے اسلام کے بنیادی مأخذ میں غوروفکرکرکے ایسے اصول وضع فرمادیئے ہیں کہ جن کے ذریعے سے قیامت تک ظاہرہونے والے ہرجدیدمسئلے کاحل معلوم کیاجاسکتاہے۔ جب بھی علماء اسلام کے سامنے کوئی جدیدمسئلہ پیش ہوتاہے مجتہدین کرام رحمہم اللہ تعالیٰ کے بیان کردہ اصولوں کی روشنی میں علمائے کرام اپنے مبلغِ علم کے مطابق سعی فرماتے ہیں اوراس مسئلے کاحل پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔لہذابعض اوقات ایک ہی مسئلے میں دویادوسے زیادہ آراء سامنے آتی ہیں ۔بہرحال اِن میں سے درست رائے وہی  ہوتی ہے جومجتہدین کرام رحمہم اللہ تعالیٰ کے قرآن وسنت اوراجماع امت سے اخذکردہ قوانین کے مطابق ہو۔ ٹی وی، وڈیواورمووی فلم کامسئلہ جب علماء کرام رحمہم اللہ تعالیٰ کے سامنے آیاتوعلماء حقہ نے مقدوربھرکوشش کرکے اس کاحکم بیان فرمایا۔چنانچہ کسی نے اسے جائزبتایااورکسی نے ناجائز۔جن حضرات نے اس کے ناجائزہونے کاحکم دیاانھوں نے اسے تصویرپرقیاس کیااورجن حضرات نے اسے جائزقراردیاانھوں نے اس کے تصویرہونے کی نفی کی اوراسے آئینے کے عکس کی مثل قراردیا۔بہرحال اگریہ ثابت ہوجائے کہ ٹی وی یاکمپیوٹرمونیٹرکی اسکرین پرنظرآنے والا عکس تصویرہی ہے توازروئے قیاس اس پرحکمِ حرمت ہی ہوگا۔ اوراگراس کے برعکس تصویرثابت نہ ہوتوجائزامورکی مووی فلم جائزہوگی۔ راقم الحروف نے اسلاف کرام رحمہم اللہ تعالیٰ خاص طورپرامام اہل سنت مجدددین وملت امام احمد رضا خان اورصدرالشریعہ رحمہمااللہ تعالیٰ کی بعض کتب میں غورکیاتوظاہرہواکہ ٹی وی اورکمپیوٹرمونیٹرکی اسکرین پرنظرآنے والے عکوس ان تصاویرکے مثل نہیں ہیں کہ جنھیں شریعت مطہرہ میں حرام قراردیاگیاہے۔ امام اہل سنت مجدددین وملت امام احمد رضا خان، صدرالشریعۃ بدرالطریقہ ابوالعلاء امجد علی اعظمی رحمہمااللہ تعالیٰ کی کتب سے یہی ظاہرہے کہ شعاعوں سے بننے والے عکوس تصویرنہیں ہیں اگرچہ سائنسی حقائق سے ناواقف شخص اسے تصویرہی سمجھے۔ امام اہل سنت اعلیحضرت رحمہ اللہ تعالی  فرماتے ہیں کہ:
"سئلتُ عمن صلّى وأمامه مرآة، فأجبتُ بالجواز، آخذاً مما هاهنا؛ إذ المرآة لم تُعبد، ولا الشبح المنطبع فيها، ولا هو من صنیع الکفار. نعم، إن کان بحیث یبدو له فيه صورته وأفعاله رکوعاً وسجوداً وقیاماً وقعوداً، وظنّ أنّ ذلك یُشغله ويلهي، فإذن لا ینبغي قطعاً".
(’’جدالممتار‘‘  ج۱  ص۳۱۱۔۳۱۲  مطبوعہ: ادارہ تحقیقات امام احمد رضاکراچی)
ترجمہ: مجھ سے ایسے شخص کے بارے میں سوال کیاگیاکہ جس نے آئینے کے سامنے نمازپڑھی تومیں نے یہاں بیان کردہ(شرح منیہ کے ) قول سے اخذکرتے ہوئے جواز کافتوی دیا۔کیونکہ نہ توآئینے کی عبادت کی جاتی ہے اورنہ اس میں کوئی صورت چھپی ہوتی ہے اورنہ یہ کفارکی مصنوعات (یعنی کفارکے شعائر) سے ہے ۔ ہاں اگرنمازپڑھنے کے دوران اسے اپنی حرکات مثل رکوع وسجودوقیام وقعودنظرآتی ہواوریہ خیال کرتاہے کہ یہ اسے نمازسے مشغول اورغافل کردیں گی تواسے آئینے کے سامنے ہرگزنمازنہیں پڑھنی چاہیے۔
چونکہ آئینے میں نظرآنے والاعکس بظاہرتصویرہی ہے بلکہ اگراس کے جوازکے بارے میں علماء کرام بیان نہ فرماتے توایک عام انسان بلکہ پڑھالکھا شخص بھی اسے تصویرسمجھتے ہوئے ناجائزسمجھتا۔ اوریہی بات اس سوال سے بھی ظاہرہے کہ سائل کواس کے بارے میں تصویر کاشبہ گزرا۔کیونکہ اگر سائل کے ذہن میں یہ شبہ نہ ہوتاتوسائل سوال ہی کیوں کرتا۔نیزامام اہل سنت نے بھی اس شبہ کواہمیت دیتے ہوئے خصوصی اہتمام سے جواب عنایت فرمایا اورشعاعوں سے بننے والے عکس کے تصویرہونے کی نفی کرتے ہوئے واضح لفظوں میں فرمایاکہ اس میں کوئی تصویر نہیں چھپتی اورجوازکاحکم دیا۔
صدرالشریعۃ بدرالطریقہ ابوالعلاء امجد علی اعظمی رحمہ اللہ تعالیٰ سے جب اسی قسم کاسوال کیاگیاتوآپ رحمہ اللہ تعالیٰ نے ارشادفرمایاکہ:
’’آئینہ سامنے ہوتونمازمیں کراہت نہیں ہے کہ سبب کراہت تصویراوروہ یہاں موجودنہیں ۔اوراگراسے تصویرکاحکم دیں توآئینے کارکھنابھی مثل تصویرناجائزہوجائے حالانکہ بالا

جماع جائزہے۔اورحقیقت امریہ ہے کہ وہاں تصویر ہوت

ی ہی نہیں بلکہ خطوط شعاعی آئینہ کی صقالت کی وجہ سے لوٹ کرچہرے پرآتے ہیں گویایہ شخص اپنے کودیکھتاہے نہ یہ کہ آئینہ میں اس کی صورت چھپتی ہے۔ ‘‘                                  (فتاوی امجدیہ  ج۱  ص ۱۸۴  مطبوعہ : مکتبہ رضویہ کراچی)
چونکہ آئینہ دیکھنے والاآئینے میں آئینے کے مقابل آنے والی مختلف اشیاء کابراہ راست مشاہدہ کرتاہے اور اپنے مشاہدے کے مطابق یہی سمجھتاہے کہ آئینے میں مختلف اشیاء کی  تصاویرہیں۔اوریہ مشاہدہ اتناپراثرہوتاہے کہ اگرکسی ناتجربہ کاراورآئینہ کی حقیقت سے ناواقف شخص کے سامنے جب کہاجائے کہ یہ تصویرنہیں ہے بلکہ صرف شعائیں ہیں تووہ یقیناً انکارکردے گا۔ اوراپنی کم علمی  کی وجہ سے نہایت ہی سادگی سے کہہ دے گاکہ آنکھوں دیکھی حقیقت کاکیسے انکارکردوں۔اگرتصویرنہیں ہے توکیانظرآرہاہے؟ چنانچہ صدرالشریعہ بدرالطریقہ رحمہ اللہ تعالیٰ نے ذہن میں پیداہونے والے اوھام کودفع کرنے کے لئے دومرتبہ نہایت ہی صریح الفاظ میں فرمایاکہ یہ تصویرنہیں ہے اوراخیرمیں مزیدوضاحت کے لئے ارشادفرمایاکہ: ’’درحقیقت امریہ ہے کہ وہاں تصویر ہوتی ہی نہیں بلکہ خطوط شعاعی آئینہ کی صقالت کی وجہ سے لوٹ کرچہرے پرآتے ہیں گویایہ شخص اپنے کودیکھتاہے نہ یہ کہ آئینہ میں اس کی صورت چھپتی ہے‘‘ تاکہ سائل کومعلوم ہوجائے کہ شعاعوں سے بننے والاعکس تصویرنہیں ہوتا۔ نیزصدرالشریعہ رحمہ اللہ تعالیٰ کے فتوی سے درج ذیل امور ظاہرہوئے ۔
اول :  آئینے میں نظرآنے والاعکس تصویرکے حکم میں نہیں بلکہ وہاں اصلاتصویرہی نہیں ۔
دوم:  شعاعوں سے بننے والے پیکرکانام تصویرنہیں ہے بلکہ عکس ہے اگرچہ وہ ظاہری طورپرتصویرکے مثل ہی کیوں نہ ہو۔
سوم:  جب شعاعوں سے بننے والاپیکرتصویرنہیں توخواہ آئینے میں ایساپیکربنے یاخارجِ آئینہ کسی اورچیزپر، وہ تصویرنہیں کیونکہ آئینے میں بننے والے پیکرسے تصویرکی نفی آئینہ کی وجہ سے نہیں بلکہ شعاع  ہونے کی وجہ سے ہے، یہی وجہ ہے کہ پانی پراورچمکدارشی مثلا اسٹیل اورپالش کئے ہوئے فرش پربننے والے واضح عکس کونہ توتصویرسمجھاجاتاہے اورنہ ہی اس پرتصویرکااطلاق کرکے اسے حرام کہاجاتاہے بلکہ اسے آئینے کے عکس کے مثل سمجھاجاتاہے حالانکہ آئینے اوران اشیاء کے اجزائے ترکیبی کافرق کسی ذی عقل سے ہرگز پوشیدہ نہیں ہے۔ لہذاظاہرہواکہ ان اشیاء میں بننے والے عکوس کوتصویرکے حکم میں صرف اس لئے نہیں داخل کیاجاتاکہ یہ شعاعوں سے بنتے ہیں جیساکہ صدرالشریعہ رحمہ اللہ تعالیٰ کی عبارت سے ظاہرہے۔ چنانچہ ٹی وی اورکمپیوٹراسکرین پرشعاعوں سے بننے والے عکس پر تصویرکاحکم دیاجاناغلط ہے ۔ ہاں اگرکوئی اعتراض کرے کہ آئینے کے عکس کاجوازتوحدیث یااجماع امت سے ضرورت کے تحت ہے تواس سے پوچھاجائے کہ پھردیگرچمکداراشیاء مثلا پالش کیاہواچمکدارفرش اوراسٹیل کے عکوس کاجوازکس وجہ سے ہے؟ حالانکہ شریعت مطہرہ کاقاعدہ ہے کہ الضرورة تتقدر بقدرها  یعنی ضرورت کے تحت کسی شے کاجوازاتناہی ہوتاہے کہ جس سے وہ ضرورت پوری ہوجائے اورضرورت سے زائد ناجائزہے۔ لہذاآئینے کے عکس کے علاوہ دیگراشیاء پربننے والے عکوس ناجائزہونے چاہئے کہ ضرورت آئینے سے پوری ہوگئی ! اوراگروہ جواب میں یہ کہے کہ دیگراشیاء کے عکوس آئینے پرقیاس کی وجہ سے جائزہیں تواس سے مقیس اورمقیس علیہ کے مابین علت مشترکہ پوچھی جائے۔ اگروہ کہے کہ ان دونوں کے مابین علت مشترکہ شعاع ہے تو ٹی وی اوروڈیوفلم بھی جائزہوئیں کہ ان کے عکوس بھی شعاعوں ہی پرمبنی ہوتے ہیں۔ اوراگروہ کہے کہ مقیس اورمقیس علیہ کے مابین علت مشترکہ عکوس کی ناپائیداری ہے توبھی ٹی وی  اوروڈیوفلم بھی جائزہوئیں کہ ان کے عکوس بھی شعاعوں پرمشتمل ہونے کی وجہ سے ناپائیدارہیں۔ اوراگرکہے کہ مقیس اورمقیس علیہ کے مابین علت مشترکہ جعل انسانی کانہ پایاجاناہے یعنی ان اشیاء میں عکوس انسانی دخل کے بغیربنتے ہیں تواس سے پوچھاجائے کہ شیشے تیارکرناپھراس پرپالش کرنا پھرعکس دیکھنے کے لئے اس کے سامنے آناانسانی عمل ہے یانہیں ؟اگرکہے نہیں تواس کا یہ جواب غلط ہے۔ اوراگرکہے ہاں تواس کا عدم جعل انسانی (انسانی عمل دخل کے نہ پائے جانے) کومقیس اورمقیس علیہ کے درمیان علت مشترکہ قرار دینا غلط ہوا۔ بہرحال مقیس اورمقیس علیہ کے مابین اشعہ (شعاع کی جمع) یاعکوس کی ناپائیداری کوعلت مشترکہ مانے بغیرکوئی چارۂ کارنہیں۔ مگرصدرالشریعہ رحمہ اللہ تعالیٰ کے کلام کے مطابق اشعہ ہی کوعلت بنانااولیٰ ہے جیساکہ آپ رحمہ اللہ تعالیٰ کے الفاظ سے ظاہرہے۔ آپ رحمہ اللہ تعالیٰ کے الفاظ درج ذیل ہیں:
’’درحقیقت امریہ ہے کہ وہاں تصویر ہوتی ہی نہیں بلکہ خطوط شعاعی آئینہ کی صقالت کی وجہ سے لوٹ کرچہرے پرآتے ہیں گویایہ شخص اپنے کودیکھتاہے نہ یہ کہ آئینہ میں اس کی صورت چھپتی ہے‘‘۔
چہارم:  جب شعاعوں سے بننے والاعکس تصویرہی نہیں ہے تواسے محفوظ کرلینے میں شرعاًکوئی ممانعت نہیں جیسے کہ وڈیوکیسٹ یاوڈیوسی ڈی پرمحفوظ

کیاجاتاہے کیونکہ محفوظ کرلینے سے اس کی حقیقت

نہیں بدلتی اورشعاع شعاع ہی رہتی ہے ۔
پنجم:  جب شعاعوں سے بننے والاپیکرتصویرنہیں توجس طرح آئینے میں خودبخودبننے کی صورت میں جائزہے اسی طرح اگراس کے بنانے میں انسانی عمل دخل ہوجیسے کہ مووی فلم توبھی جائزہی رہے گا کہ دونوں صورتوں میں عکس مجموعہ اشعہ ہی رہے گا۔انسانی عمل دخل سے اس کی حقیقت تبدیل نہیں ہوگی۔ 
ششم:  جب شعاعوں سے بناہواپیکرتصویرہی نہیں تواس کابنوانابھی جائزہے جیسے کہ علماء کرام تبلیغ دین کے لیے ٹی وی پرجلوہ گرہوتے ہیں اوروڈیوفلم بنواتے ہیں۔
امام اہل سنت مجدددین وملت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن اورصدرالشریعہ بدرالطریقہ ابوالعلاء مفتی امجد علی اعظمی رحمہمااللہ تعالیٰ کی عبارات سے روزِروشن کی طرح عیاں ہواکہ شعاعوں سے بننے والے عکوس تصویرنہیں ہیں ۔ لہذاٹی وی اوروڈیوفلم کاجائزاستعمال بھی جائزہواکہ ان میں نظرآنیوالے پیکربھی اشعہ ہی پرمشتمل ہوتے ہیں جیساکہ سائنسی تحقیقات سے ثابت ہے۔ ’’انسائکلوپیڈیاانکارٹا‘‘میں ہے ۔
Video Recording, process of recording still or moving images electronically, rather than photochemically as in photographic film. The techniques used to record images on videotape are similar to those used to record sound (see Sound Recording and Reproduction). Electrical signals from a television camera (or from a television camera via a television receiver) are stored as patterns of magnetized regions of iron oxide on so-called magnetic tape. When the recorded tape is played back, the original signals are generated. These signals can then be disseminated by broadcast antenna or by cable to television receivers that translate the signals into images and sounds.         
.Microsoft ® Encarta ® Reference Library 2003. © 1993-2002 Microsoft Corporation
ترجمہ:  جامداورالیکٹرونی حرکت کرتے ہوئے عکوس کی ریکارڈنگ کاطریقہ فوٹوکی ریل پرریکارڈنگ سے مختلف ہے(یعنی جس طرح فوٹوریل پرفوٹوچھپتاہے اس طرح وڈیوریکارڈنگ میں کوئی فوٹونہیں چھپتا)۔  وڈیوٹیپ پرعکوس کی ریکارڈنگ کی تکنیک آواز کی ریکارڈنگ میں استعمال کی جانے والی تکنیک کے مشابہ ہے(یعنی جس طرح آواز کی ریکارڈنگ گراف کی صورت میں ہوتی ہے اسی طرح وڈیوریکارڈنگ میں بھی گراف بنتے ہیں نہ کہ فوٹو)۔ ٹیلی وزن کیمرے(یاٹی وی کیمرے سے ٹی وی ریسیورپر) سے نکلنے والے برقی اشاروں کومقنائی ریل پر آئرن آکسائیڈ کے مقنائے ہوئے حصوں کے طریق پرجمع کیاجاتاہے۔ جب ریکارڈ کی ہوئی ریل کوچلایاجاتاہے تویہی اصل برقی اشارے پھرسے شروع ہوجاتے ہیں۔ ان برقی اشاروں کوکسی بھی نشریاتی انٹینایامخصوص تارکے ذریعے سے ٹی وی ریسیورزتک پھیلایاجاسکتاہے۔پھروہ اسے عکوس اورآوازمیں منتقل کردیتاہے۔
مزید وضاحت کے لئے ٹی وی اوروڈیوکیمرے کی پوری تحقیق درج ذیل سطورمیں رقم کی جاتی ہے۔
III               THE TELEVISION CAMERA
The television camera is the first tool used to produce a television program. Most cameras have three basic elements: an optical system for capturing an image, a pickup device for translating the image into electronic signals, and an encoder for encoding signals so they may be transmitted.
A                Optical System
The optical system of a television camera includes a fixed lens that is used to focus the scene onto the front of the pickup device. Color cameras also have a system of prisms and mirrors that separate incoming light from a scene into the three primary colors: red, green, and blue. Each beam of light is then directed to its own pickup device. Almost any color can be reproduced by combining these colors in the appropriate proportions. Most inexpensive consumer video cameras use a filter that breaks light from an image into the three primary colors.
B                Pickup Device
The pickup device takes light from a scene and translates it into electronic signals. The first pickup devices used in cameras were camera tubes. The first camera tube used in television was the iconoscope. Invented in the 1920s, it needed a great deal of light to produce a signal, so it was impractical to use in a low-light setting, such as an outdoor evening scene. The image-orthicon tube and the vidicon tube were invented in the 1940s and were a vast improvement on the iconoscope. They needed only about as much light to record a scene as human eyes need to see. Instead of camera tubes, most modern cameras now use light-sensitive integrated circuits (tin

y, electronic devices) called charge-coupled

devices (CCDs).
When recording television images, the pickup device replaces the function of film used in making movies. In a camera tube pickup device, the front of the tube contains a layer of photosensitive material called a target. In the image-orthicon tube, the target material is photoemissive-that is, it emits electrons when it is struck by light. In the vidicon camera tube, the target material is photoconductive-that is, it conducts electricity when it is struck by light. In both cases, the lens of a camera focuses light from a scene onto the front of the camera tube, and this light causes changes in the target material. The light image is transformed into an electronic image, which can then be read from the back of the target by a beam of electrons (tiny, negatively charged particles).
The beam of electrons is produced by an electron gun at the back of the camera tube. The beam is controlled by a system of electromagnets that make the beam systematically scan the target material. Whenever the electron beam hits the bright parts of the electronic image on the target material, the tube emits a high voltage, and when the beam hits a dark part of the image, the tube emits a low voltage. This varying voltage is the electronic television signal.
A charge-coupled device (CCD) can be much smaller than a camera tube and is much more durable. As a result, cameras with CCDs are more compact and portable than those using a camera tube. The image they create is less vulnerable to distortion and is therefore clearer. In a CCD, the light from a scene strikes an array of photodiodes arranged on a silicon chip. Photodiodes are devices that conduct electricity when they are struck by light; they send this electricity to tiny capacitors. The capacitors store the electrical charge, with the amount of charge stored depending on the strength of the light that struck the photodiode. The CCD converts the incoming light from the scene into an electrical signal by releasing the charges from the photodiodes in an order that follows the scanning pattern that the receiver will follow in re-creating the image.
C                Encoder
In color television, the signals from the three camera tubes or charge-coupled devices are first amplified, then sent to the encoder before leaving the camera. The encoder combines the three signals into a single electronic signal that contains the brightness information of the colors (luminance). It then adds another signal that contains the code used to combine the colors (color burst), and the synchronization information used to direct the television receiver to follow the same scanning pattern as the camera. The color television receiver uses the color burst part of the signal to separate the three colors again.
IV               SCANNING
Television cameras and television receivers use a procedure called scanning to record visual images and re-create them on a television screen. The television camera records an image, such as a scene in a television show, by breaking it up into a series of lines and scanning over each line with the beam or beams of electrons contained in the camera tube. The pattern is created in a CCD camera by the array of photodiodes. One scan of an image produces one static picture, like a single frame in a film. The camera must scan a scene many times per second to record a continuous image. In the television receiver, another electron beam-or set of electron beams, in the case of color television-uses the signals recorded by the camera to reproduce the original image on the receiver's screen. Just like the beam or beams in the camera, the electron beam in the receiver must scan the screen many times per second to reproduce a continuous image.
Microsoft ® Encarta ® Reference Library 2003. © 1993-2002 Microsoft Corporation
’’ کسی بھی ٹی وی پروگرام کی تشکیل میں سب سے پہلے استعمال ہونے والاآلہ ٹی وی کیمرہ ہے۔ عام طورپریہ کیمرے تین بنیادی عناصرپرمشتمل ہوتے ہیں۔ پہلا عنصر آپٹیکل سسٹم :  یہ عکوس کوحاصل کرنے کے لئے عدسوں کانظام ہے۔ دوسراعنصر پک اپ

ڈوائس :  یہ عکوس کوالیکٹرونک  اشاروں میں ت

بدیل کرنے کاآلہ ہے۔ تیسرا عنصر انکوڈر:  یہ آلہ ان اشاروں کوکوڈز(خفیہ علامات) میں تبدیل کرتاہے تاکہ انھیں نشرکیاجاسکے۔ ہر ایک عنصرکے بارے میں مختصرمعلومات پیش کی جاتی ہیں۔
(۱)  عدسوں کانظام (Optical System)  
آپٹیکل سسٹم ایک نصب کئے ہوئے عدسے (Lens)پرمشتمل ہوتاہے۔ اوریہ پک اپ ڈوائس کے سامنے موجودمناظرکے ارتکازکے لئے استعمال ہوتاہے۔رنگین کیمروں میں بھی منشوروں (Prisms)اورآئینوں Mirrors) کانظام ہوتاہے جوکسی بھی منظر(Scene)سے آنے والی روشنی (Light)کوتین بنیادی رنگوں کی روشنیوں(سرخ، سبزاورنیلی) میں علیحدہ علیحدہ کردیتاہے۔ پھرروشنی کی ہرکرن (Beam)اپنے اپنے پک اپ ڈوائس کی طرف پھیردی جاتی ہے۔ عام طوراستعمال کئے جانے والے کم قیمت کیمروں میں ایک فلٹرلگاہوتاہے جوروشنی کومذکورہ رنگوں میں تقسیم کردیتاہے۔
(۲) پک اپ ڈوائس  (Pickup Device)
یہ آلہ کیمرے کے سامنے موجود منظرسے روشنی حاصل کرکے اسے الیکٹرونک اشاروں (Electronic Signals)میں تبدیل کرتاہے۔ کیمروں میں سب سے پہلے کیمرہ ٹیوب کوبطورپک اپ ڈوائس استعمال کیاگیاتھا۔ ٹی وی میں سب سے پہلے استعمال کی جانے والی ٹیوب کانام آئی کونسوکون تھا۔ یہ   ۱۹۲۰؁ ء میں ایجادہوئی تھی۔مگراس کے ذریعے الیکٹرونک اشارے پیداکرنے میں بہت زیادہ روشنی کی ضرورت پڑتی تھی۔چنانچہ یہ کم روشنی میں ناقابل استعمال تھی خاص طورشام کے وقت کھلی فضاکے مناظرمیں ۔    ۱۹۴۰ ؁ء میں امیج آرتھیکون ٹیوبز اوروڈیکون ٹیوب ایجادہوئیں اوریہ آئی کونسوکون ٹیوب کے مقابلے میں خاصی ترقی یافتہ تھیں۔ ان ٹیوب کوکسی بھی منظرکوریکارڈکرنے کے لئے صرف اتنی روشنی ضروت تھی کہ جتنی انسانی آنکھ کوضرورت ہوتی ہے۔آج کل جدید کیمروں میں لائٹ سینسٹوانٹیگریٹڈ سرکٹس  (Light-Sensitive Integrated Circuits) استعمال کئے جاتے ہیں۔ انھیں چارج کپلڈڈوائسس (CCDs)کہاجاتاہے۔  جب عکوس کی ریکارڈنگ ہوتی ہے تو اس وقت پک اپ ڈوائس اس فلم کا کام کرتاہے جومووی فلم بنانے میں استعمال ہوتی ہے۔ کیمرے میں پک اپ ڈوائس کی ٹیوب کے سامنے روشنی پرردعمل کرنے والے مادے کی پرت ہوتی ہے جسے ٹارگٹ کہاجاتاہے۔ جبکہ  امیج آرتھیکون ٹیوب کے سامنے روشنی خارج کرنے والے مادے کی پرت ہوتی ہے۔جب روشنی کی کوئی کرن اس سے ٹکراتی ہے تویہ الیکٹرون خارج کرتاہے۔ اوروڈیکون ٹیوب کے سامنے روشنی کوترسیل کرنے والامادہ(Photoconductive) لگاہوتاہے۔ جب روشنی کی کوئی کرن اس سے ٹکراتی ہے تویہ بجلی پیداکرتاہے۔اوران دونوں قسم کی ٹیوبز کے سامنے لگے ہوئے مادے کوٹارگٹ ہی کہاجاتاہے۔بہرحال دونوں ہی صورتوں میں، کیمرے کاعدسہ کیمرہ ٹیوب کے سامنے روشنی کومرتکز کرتاہے۔ اوریہ روشنی ٹارگٹ میں تغیر کاسبب بنتی ہے۔اس تغیر کے سبب روشنی کاعکس الیکٹرونک عکس میں تبدیل ہوجاتاہے۔اس الیکٹرونک عکس کوٹارگٹ کے پیچھے سے الیکٹرونک کرن کے ذریعے سے دیکھاجاسکتاہے۔الیکٹرونک کرن کیمرہ ٹیوب کے پیچھے لگی ہوئی گن (دھاتی نالی)کے ذریعے سے پیداکی جاسکتی ہے۔ اس الیکٹرونک کرن کوایک برقیائے مقناطیسی نظام(Electromagnets System)   کے ذریعے سے کنٹرول کیاجاتاہے۔ یہ نظام ایک سلیقے سے الیکٹرونک کرن کے ذریعے ٹارگٹ کو اسکین (Scan) کرواتاہے۔(اسکیننگ کی تفصیل آئندہ سطورمیں آرہی ہے۔) جب یہ کرن الیکٹرونک اشارے کے چمکدارحصے سے ٹکراتی ہے توبلندوولٹیج خارج ہوتے ہیں اورجب کسی کم روشن حصے سے ٹکراتی ہے توہلکے وولٹیج خارج ہوتے ہیں۔یہ متغیروولٹیج ہی ٹی وی کے الیکٹرونی اشارے(Electronic Signals)  ہیں ۔ چارج کپلڈ دوائس (CCD) کیمرہ ٹیوب کی بنسبت بہت چھوٹااورزیادہ پائیدارہوتاہے۔چنانچہ چارج کپلڈڈوائس پرمشتمل کیمرے بہت چھوٹے ہوتے ہیںاورآسانی سے قابل انتقال ہوجاتے ہیں۔ اس قسم کے کیمرے جوعکس بناتے ہیں وہ نشرکئے جانے کے دوران کم خراب ہوتے ہیں لہذایہ عکوس زیادہ واضح ہوتے ہیں۔ اس قسم کے کیمروں میں منظرسے خارج ہونے والی روشنی سلیکون کی چھوٹی سی پٹی پرلگے ہوئے روشنی کے مواصل  (Photodiodes)سے ٹکراتی ہے۔ روشنی کے مواصل سے مرادوہ آلات ہیں کہ جب ان پرروشنی پڑتی ہے توبرق کی ترسیل کرتے ہیں اوریہ اس برق کونہایت ہی چھوٹے کیپیسٹرزکی طرف روانہ کردیتے ہیں۔یہ کیپیسٹرزاس کرنٹ کوجمع کرلیتے ہیں۔اوریہ برقی کرنٹ کواسی قوت کے تناسب سے جمع کرتے ہیں کہ جس قوت کے تناسب سے روشنی کے مواصل سے ابتداء میں روشنی ٹکرائی تھی۔ چارج کپلڈ ڈوائس ، کیمرے کے مقابل منظرسے آنے والی روشنی کوروشنی کے مواصل  (Photodiodes)  سے پیداہونے والے کرنٹ کے ذریعے سے برقی اشاروں میں تبدیل کردیتے ہیں۔ اور اس روشنی کوبرقی اشاروں میں تبدیل کرنے کے لئے اسکیننگ کاوہی طریقہ استعمال ہوتاہے جوٹی وی یاکمپیوٹرریسیوران اشاروں کوعکوس میں تبدیل کرنے کے لئے استعمال کرتاہے۔ 
(۳)  انکوڈر  (Encoder)
رنگین کیمروں میں تین کیمروں کی ٹیوبوں یاچارج کپلڈ ڈوائسس سے پیداہونے والے برقی اشاروں کوکیمرے سے خارج کرنے سے پ

ہلے  طاقتور بنایاجاتاہے اورانکوڈرنامی آل

ے کی طرف بھیجاجاتاہے۔ یہ آلہ تینوں اشاروں کوایک الیکٹرونک اشارے کی صورت میں جمع کردیتاہے۔ اوریہ اشارہ رنگوں کی واضح اطلاع پرمشتمل ہوتاہے۔پھریہ آلہ ایک اوراشارہ خارج کرتاہے جورنگوں کوجمع کرنے میں استعمال کی گئی اصطلاح اورعکس کے بنانے کی معلومات پرمشتمل ہوتاہے تاکہ ٹی وی ریسیورکوراہنمائی کرے کہ وہ اسکیننگ کے لئے اسی طریقے کی پیروی کرے جوکیمرے میں اسکیننگ کے لئے استعمال کیاگیاتھا۔ رنگین ٹی وی کا ریسیور تینوں رنگوں کوالگ الگ کرنے کے لئے اس الیکٹرونی اشارے کے رنگ سے بھرپورحصے کواستعمال کرتاہے۔
اسکینگ  (Scanning)
ٹی وی کیمرے اورریسیورقابل رئویت عکوس کوجمع کرنے اورانھیں ٹی وی اسکرین پردوبارہ پیداکرنے کے لئے ایک مخصوص طریقہ استعمال کرتے ہیں جسے اسکیننگ کہاجاتاہے۔ٹی وی کیمرے کیمرے میں موجودکیمرہ ٹیوب کے اندرعکس کولائنوں کے باقاعدے سلسلے میں توڑ کراورکیمرے میں موجودٹیوب میں الیکٹرون کی ایک یاایک سے زائد کرنوں سے ہرلائن کواسکین کرکے محفوظ کرتے ہیں۔ چارج کپلڈ کیمروںمیں یہ کام روشنی کے مواصل کی ترتیب سے لیاجاتاہے۔ایک عکس کوایک مرتبہ اسکین کرنے سے ایک جامدعکس بنتا ہے جس طرح کہ فلم کاایک فریم ہوتاہے۔ متحرک عکس بنانے کے لئے کیمرہ ایک منظرکوایک سیکنڈمیں کئی مرتبہ اسکین کرتاہے۔ ٹی وی ریسیور اصل عکس کوٹی وی اسکرین پرظاہرکرنے کے لئے کیمرے کے ذریعے محفوظ کئے گئے الیکٹرونک اشاروں کوایک کرن اوررنگین ٹی وی ہونے کی صورت میں ایک سے زائد کرنیں استعمال کرتاہے۔ جس طرح کیمرے میں ایک یاایک سے زائد کرنیں عکس کومحفوظ کرنے کے لئے ایک سیکنڈ میں کئی مرتبہ اسکین کرتی ہیں اسی طرح ٹی وی ریسیور اسکرین پرموجوداشاروں کومتحرک عکس میں تبدیل کرنے کے لئے  ایک یا ایک سے زائد کرنوں کے ذریعے سے ایک سیکنڈمیں کئی مرتبہ اسکین کرتاہے۔ ‘ ‘
الحمدللہ جدیدسائنسی تحقیق سے بھی ظاہرہوگیاکہ عکس کو وڈیوفلم میں محفوظ کرلینے کے مراحل سے ٹی وی یاکمپیوٹرمونیٹرکی اسکرین پرظاہرہونے تک سراسرشعاعیں ہی ہیں ۔ اورجب یہ شعاعیں ہی ہیں توا ن پرتصویرکاحکم لگاناغلط اورامام اہل سنت اورصدرالشریعہ رحمھمااللہ عزوجل کی تصریحات کے خلاف ہے۔  یہی وجہ ہے کہ حضرت غزالی دوراں علامہ سیداحمد سعیدکاظمی رحمۃ اللہ تعالیٰ جائز وڈیوفلم کے جوازکے قائل تھے ۔ چنانچہ آپ رحمہ اللہ تعالیٰ نے نہ صرف شہزادہ محدث اعظم ہند کچھوچھوی (رحمہ اللہ تعالیٰ)حضرت علامہ محمد مدنی میاں اشرفی مدظلہ العالیٰ کی وڈیواورٹی وی کے شرعی استعمال سے  متعلق تحقیق کی تصدیق فرمائی بلکہ اس تحقیق پرانھیں رئیس المحققین کے شاندارلقب سے بھی نوازا۔ آپ رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’رئیس المحققین حضرت علامہ سیدمحمدمدنی الاشرفی الجیلانی دامت معالیہم
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ تعالیٰ وبرکاتہ۔ مزاج اقدس؟
حضرت کامقدورگرامی شرف صدورلایا۔یادفرمائی کابے حد شکریہ ۔جناب کے ارسال کردہ استفتاء وفتاویٰ کوبغورسناتینوں فتاویٰ حضرت کی فہم وذکاء اورتحقیق وجستجوکامنہ بولتاشاہکارہیں۔بے شک جناب کی ذہانت اوراستنباط لائق صدستائش اورقابل تحسین اورآفرین ہیں۔آپ نے جس آسانی سے ایسے مشکل مسائل کوعام فہم اندازمیں ڈھال کرحل فرمایاہے وہ آپ ہی کاحصہ ہے۔بزرگان دین اورعلماء امت کے مختلف اقوال کوجس عمدگی سے بیان فرمایاہے اورجس حسن وخوبی سے نبھایاہے وہ آپ کی انشراح صدراورعلوم عقلی اورنقلی میں مہارت تامہ کامظہراتم ہے۔خصوصاطرزاستدلال اوراندازتحریرباعث رشک ہیں۔
میں ہرسہ فتاویٰ میں آپ سے متفق ہوں۔خصوصاوڈیوکیسٹ، ٹی وی اورفلم کے بارے میں جس قدرعرق ریزی سے جناب نے تحقیق فرمائی اورپھرجس خوبصورتی سے ان حقائق کی روشنی میں جائزوناجائزصورتوں میں امتیازکرتے ہوئے فتویٰ قلمبند فرمایاوہ قابل تقلید ہے۔ ‘‘                                                           ( وڈیو، ٹی وی کاشرعی استعمال  ص۱۰) 
مفتی اعظم پاکستان حضرت علامہ وقارالدین رحمہ اللہ تعالیٰ کے فتاوی سے بھی جائزوڈیوفلم دیکھنے کاجواز ظاہرہے۔ جب آپ رحمہ اللہ تعالیٰ سے ٹی وی پروگرام دیکھنے سے متعلق سوال کیاگیاتوآپ رحمہ اللہ تعالیٰ نے ارشادفرمایاکہ:
’’ٹی وی کے ایسے پروگرام جودینی ہوں اورجن میں عورت یااس کی آواز نہ ہو، دیکھنے اورسننے میں کوئی حرج نہیں۔‘‘                                                                                     (وقارالفتاوی  ج۱  ص ۲۱۹  ناشر: بزم وقارالدین)
اسی طرح آپ رحمہ اللہ تعالیٰ سے خالی وڈیوکیسٹ کی خریدوفروخت سے متعلق سوال کیاگیاتو آپ رحمہ اللہ تعالیٰ نے ارشادفرمایاکہ:
’’(وڈیو)کیسٹ صرف معصیت ہی نہیں بلکہ نیک کاموں بھی استعمال ہوتاہے۔لہذاکیسٹ منگانے اوربیچنے میں کوئی حرج نہیں ۔ استعمال کرنے والا جس جگہ استعمال کرے گاوہ اس کاذمہ دارہوگا۔‘‘  
                                                                             (وقارالفتاوی  ج۱  ص ۲۱۹ ۔۲۲۰  ناشر: بزم وقارالدین)

ظاہرہے کہ وڈیوکیسٹ کے ذریعے علماء کرام ک

ے بیانات ، نعت خوانی وغیرہ کی ریکارڈنگ کے علاوہ اورکون سے نیک کام ہوسکتے ہیں۔ جب علماء کرام کے بیانات کی ریکارڈنگ کرنا نہ صرف جائزبلکہ نیک کام ہوئی تو علماء کرام کاجائزامورکے لئے اپنی مووی بنوانابدرجہ اولیٰ جائزہوا۔ لہذاظاہرہواکہ مفتی اعظم پاکستان وقارالدین رحمہ اللہ تعالیٰ بھی جائزامورکی مووی دیکھنے کے جوازکے قائل تھے۔   
الحمدللہ ہمارے معتمد علیہ بزرگوں کے اقوال سے ظاہرہواکہ مووی فلم تصویرکے حکم میں نہیں ہے اورازروئے شرع جائزامورکی مووی فلم دیکھنا، بنانااوربنواناجائزہے۔ ہاں البتہ اس کے جوازکے بارے میں یہ شبہ ہوسکتاہے کہ اگرچہ یہ تصویرنہ ہومگراس میں مضاهاة لخلق الله یعنی اللہ تعالیٰ کی مخلوق سے مشابہت توپائی جارہی ہے۔اوراحادیث مبارکہ میں اس سے متعلق بھی وعیدیں وارد ہوئی ہیں۔لہذاوڈیوفلم بنانااوربنوانا پھربھی ناجائزہوا۔راقم الحروف بفیض امام اہل سنت وصدرالشریعہ وامیراہل سنت متعنااللہ تعالیٰ بفیوضھم اس شبہ کے جواب  میں کہے گاکہ مضاهاة لخلق الله (اللہ تعالیٰ کی مخلوق سے مشابہت ) ہرقسم کی تصویرمیں نہیں ہے بلکہ صرف انھیں تصاویرکے بنانے میں ہے جوازروئے شرع ممنوع ہوں۔ چنانچہ درخت ، پہاڑوغیرہ سب اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہیں مگران کی تصویربناناجائزہے جیساکہ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک مصورسے فرمایاکہ :
«ويحك، إن أبيت إلاّ أن تصنع، فعليك بهذا الشجر، كلّ شيء ليس فيه روح»۔رواہ البخاری                                                                                   (مشکوۃ ص۳۸۶  مطبوعہ: قدیمی کتب خانہ)
یعنی تیری خرابی ہواگرتوتصویربنائے بغیربازنہ آئے تو درخت اورہربے روح کی تصویربناسکتا ہے۔
اسی طرح انسانی جسم کی تصویراگربغیرسربنائی جائے توجائزہے کہ یہ اب تصویرممنوعہ نہ رہی جیساکہ ا مام اہل سنت رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ:
’’اگرچہرہ نہیں تواسے صورت حیوانی نہ کہاجائے گااس پرایک توامین الوحی جبریل علیہ الصلوۃ و السلام کاقول گذراکہ ان کے سرکاٹ دیجیے کہ ہیأت درخت پرہوجائیں دوسرے ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کاارشادگزراکہ صورت سرکانام ہے جس کے سرنہیں وہ صورت نہیں تیسرے امام اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کاارشاد گزراکہ سرکاٹ دیاتوصورت نہ رہی۔ ‘‘
(فتاوی رضویہ  ج۱۰  نصف آخر  ص ۶۰  مطبوعہ: مکتبہ رضویہ  کراچی) 
حالانکہ درخت، پہاڑ اوربے سرکی تصاویرمیں بھی بلاشبہ اللہ تعالیٰ کی مخلوق سے مشابہت پائی جاتی ہے مگرشریعت مطہرہ نے ان کے بنانے کی اجازت دی ۔ لہذاظاہرہواکہ کسی ایسی چیزکی تصویربناناجائزہے جوممنوعہ تصاویرکے حکم میں داخل نہ ہوں اوران کے بنانے میں اللہ تعالیٰ کی مخلوق سے مشابہت کاحکم نہیں ہے۔ راقم الحروف نے گذشتہ اوراق میں اقوال علماء کرام رحمہم اللہ تعالیٰ سے ثابت کیاہے کہ شعاعوں سے بننے والے عکوسممنوع تصاویرکے حکم میں داخل نہیں ہیں لہذاان کے بنانے اوربنوانے میں اللہ تعالیٰ کی مخلوق کی مشابہت کاحکم نہ ہوگا۔
وڈیو فلم کے جوازسے متعلق دوسراشبہ یہ ہوسکتاہے کہ اگرمان بھی لیاجاتے کہ وڈیو فلم تصویرنہیں ہے مگراس سے وہ تمام کام لئے جاتے ہیں جوتصویرسے لئے جاتے ہیں۔اوریہ فقہ کاقانون ہے کہ الأموربمقاصدها یعنی امورکااعتباران کے مقاصدسے ہوتاہے مثلاکوئی شخص اپنے مال سے کسی کے لئیاپنی موت کے بعدہبہ کاکہے توشرعایہ ہبہ نہیں وصیت ہے اوراس پروصیت کے احکام جاری ہونگے۔ اسی طرح کوئی اپنی زندگی ہی میں کسی کومال دینے کاحکم بلفظ وصیت کرے تو عندالشرع یہ ہبہ ہے اوراس پرہبہ کے احکام جاری ہونگے۔چنانچہ وڈیو فلم کوتصویرنہ بھی کہاجائے پھربھی تصویرہی ہے کہ اس سے وہ تمام اغراض حاصل کی جاسکتی ہیں جوتصویرسے حاصل کی جاتی  ہیں۔لہذا یہ ناجائزہے۔ راقم الحروف  اس اعتراض کے جواب میں کہتاہے کہ یہ اعتراض ایک غلط فہمی پرمبنی ہے ۔ اس اعتراض کاسبب دراصل ا غراض انسانی اورمقاصدشرع میں فرق نہ کرنے کی وجہ سے ہے۔ غرض انسانی کاتعلق نتیجے پرہوتاہے خواہ وہ کسی طورپرحاصل ہو جبکہ مقصد شرع پرجائزوناجائزاورحلت وحرمت کامدارہوتاہے جیساکہ امام اہل سنت امام احمد رضا خان رحمہ اللہ تعالیٰ مولاناعبدالحئی لکھنوی رحمہ اللہ تعالیٰکواسی قسم کی غلط فہمی پرتنبیہ کرتے ہوئے رقم طرازہیں کہ:
’’آپ مقاصد شرعیہ واغراض انسانیہ میں فرق نہ سمجھے۔مقاصدشرع وہ ہیں جن پرصحت وفساد وحلت وحرمت کامدارہے۔اوراغراض انسانیہ وہ نتائج کہ ان کے نزدیک انھیں حاصل ہوں۔مقاصدباختلاف عقودمختلف ہوجاتے ہیں۔اورنتائج بارہاعقودمتبائینہ(مختلف عقود) میں متحد رہتے ہیںمثلازید اپنانصف مکان قابل قسمت بلاتقسیم اپنے شریک مساوی (برابری کاحصہ دار)کوہبہ کرکے اپناقبضہ اٹھائے کہ سارامکان قبض وتصرف شریک میں رہے یااس کے ہاتھ بیچ کرثمن اس کومعاف کردے دونوں صورتوں میں نتیجہ واحد ہے ۔انسانی غرض ان میںفرق نہیں کرتی مگرمقصدشرعی کااختلاف شدیدہے کہ پہلی صورت فاسدوحرام اوردوسری صحیح وحلال یوں ہی اگرکوئی شخص دس کے پندرہ لینا

چاہے اب دس روپوں(چاندی کے سکے) کوخواہ پ

ندرہ روپیوں (چاندی کے سکے)کے عوض بیچے خواہ ایک صاع وزن کے بدلے اس کی غرض دونوں طرح بلاتفاوت حاصل ہے مگرمقاصدشرعیہ اتنے مختلف ہیں کہ پہلی صورت توسود،رباگناہ کبیرہ حرام قطعی موجب دخول ناراوردوسری شکل درست صحیح حلال روابے اعتراض بلاانکارنوٹ سے اغراض انسانیہ ثمن خلقی کی طرح بلاتفاوت متعلق ہوتواس سے احکام ومقاصدشرعیہ میں اتحادسمجھ لیناکیسی سخت نادانی ہے۔احسان تونہ مانئے گاکہ کیسے کیسے جواہرزواہرمیراقلم جناب کی قلب پرالقاء کرتاہے۔انصاف کیجیے توایک یہی نکتہ آپ کی ساری عرق ریزی کاعلاج کافی ووافی ہے۔وللہ الحمد ‘‘                                                           (فتاوی رضویہ  ج ۷  ص ۲۲۵  مطبوعہ: مکتبہ رضویہ کراچی)
تقریبایہی مسئلہ وڈیوفلم(جوکہ شعاعوں پرمشتمل ہوتی ہے) اورتصویر کاہے۔ دونوں سے اغراض توایک ہی قسم کی وابستہ ہوتی ہیں مگردونوں کاشرعی حکم مختلف ہوتاہے۔پہلی صورت تصویر ممنوعہ نہ ہونے کی وجہ سے جائزواوردوسری صورت تصویرممنوعہ ہونے کی وجہ سے ناجائزہے۔
دورحاضرمیں وڈیوکامسئلہ اتناعام ہوچکاہے کہ تقریبا ہرحساس جگہ پرحفاظت (Security)کے نقطہ نظرسے وڈیوکیمرے نصب کئے جاتے ہیں۔ اورآنے جانے والے کوکئی زاویوں سے دیکھنے کے لئے ایک سے زائد وڈیوکیمرے نصب کئے جاتے ہیں۔سرکاری تنصیبات پرخصوصی انتظام کیاجاتاہے۔ یونہی ہوائی جہازسے سفرکیاجائے توہوائی اڈے میں داخل ہونے سے لیکر ہوائی جہازمیں بیٹھنے تک اوراسی طرح جہازمیں بیٹھنے کے بعدسے ہوائی جہازسے اترنے تک بلکہ اسکے بعدبھی ائیرپورٹ سے نکلنے تک مسلسل وڈیوکیمرے چلتے رہتے ہیں اورآدمی کی وڈیوفلم بنتی رہتی ہے۔اگربالفرض اس وڈیوفلم پرتصویرکافتوی دیاجائے توجہازمیں سفرکرناناجائزہوجائیگاحالانکہ اس کے برعکس آج تک نہ تودیکھنے میں آیااورنہ ہی سننے کوملاکہ کوئی صالح شخص یاکوئی عالم صاحب صرف اس وجہ سے جہازمیں سفرکرنے سے گریزکرتے ہیں۔ قوانین شرعیہ کی روسے ان حضرات کے لئے جہازمیں سفرکرناجائزنہیں جووڈیوفلم کوتصویرپرقیاس کرتے ہوئے ناجائزکہتے یں۔کیونکہ اگرکسی واجب کی ادائیگی کے لئے بھی سفرکرناپڑے تواس کے لئے اوربہت سے ذرائع ہیں ان میں سفرکرلے۔کیونکہ جہازمیں سفرکرنامنفعت سے توبڑھ کرنہیں ہے اورتصویر حرام یاکم ازکم مکروہ تحریمی توہے ۔ اورشریعت مطھرہ کاقاعدہ تویہ ہے کہ اگرکسی واجب کی ادائیگی کے لئے بھی کسی مکروہ تحریمی کاارتکاب کرناپڑے تودرء المفاسداهم من جلب المصالح (مفاسدکودورکرنامصالح کے حصول سے زیادہ اہم ہے۔)کے تحت اس واجب کوچھوڑدینے کاحکم ہے ۔ اس کے نظائرکتب فقہیہ میں بکثرت موجود ہیں۔ توان لوگوں کے لئے جہازمیں سفرکرناکس طرح جائزہوجائیگاحالانکہ یہ منفعت سے بڑھ کرنہیں۔ اب اگرکوئی جواباکہے  کہ جناب ہم اس پرراضی نہیں ہیں اوراس میں ہماراکوئی قصورنہیں ہے تویہ بالکل لغوحیلہ ہے کیونکہ اگرچہ وہ براہ راست گناہ نہیں کررہامگراس گناہ کاذریعہ توبن رہاہے بلکہ وڈیوفلم کی معصیت بعینہ اسی کی وجہ سے قائم ہورہی ہے۔ اگریہ وڈیوکیمرے کے سامنے نہ آتاتواس کی وڈیوبھی نہ بنتی۔ یونہی کسی بڑے اسٹورمیں سامان خریدنے کیلئے جاناپڑے تووڈیو کاسامناکرناپڑتاہے بلکہ ترقی یافتہ ممالک یاجہاں پیسے کی ریل پیل ہوتی ہے وہاں توعموماہراسٹورہی میں وڈیوکیمرے لگے ہوتے ہیں۔ ظاہرہے کہ جومسلمان ان ممالک میں رہتے ہیں وہ کس طرح ان وڈیوکیمروں سے بچ سکتے ہیں۔اگرخودنہ جائیں بلکہ کسی کوبھیج کرسامان منگوائیں تووڈیوکے حرمت کے فتوی کے اعتبارسے دوناجائزکام لازم آئیں گے۔ایک تومسلمان کوگناہ کامشورہ دینااوردوسراجانے والے شخص کاگناہ میں ملوث ہونا۔یونہی زیارت حرمین شریفین کے لئے اگربذریعہ ہوائی جہازجایاجائے توعمومااپنے ملک کے ائیرپورٹ سے لے کرعرب شریف کے ائیرپورٹ تک مسلسل کیمرے کی زدمیں رہناپڑتاہے۔پھرمعاملہ یہاں تک ہی نہیں رہتابلکہ مسجدین کریمین میں داخل ہونے کے بعدسے نکلنے تک مسلسل کیمرے کے ذریعے سے کئی اطراف سے نگاہوں میں رکھاجاتاہے۔ اوراگروہاںکسی مہنگے ہوٹل میں رہائش اختیارکی جائے تووہاں بھی وڈیوکیمرے سے جان نہیں چھٹ سکتی ۔چنانچہ وڈیوکومطلقابلاکسی تقیید کے حرام ماناجائے توصرف فرض حج کی ادائیگی ہی کے لئے جاناجائزہوگااوروہ بھی اس طرح کہ مسجد نبوی علی صاحبھاالصلوۃ والسلام میں توجانامطلقاناجائزہوگا۔نہ نمازکے لئے اورنہ ہی زیارت شریفہ کے لئے۔ کیونکہ نمازکسی اورمسجد میں بھی پڑھی جاسکتی ہے اورزیارت شریف اگرچہ قریب بواجب ہے بلکہ واجب ہو تب بھی نہیں کرسکتاکہ حرمت کے فتوی کے مطابق وڈیوفلم تصویرہے اوراس سے بچنافرض ہے۔ لہذا واجب کی ادائیگی کے لئے تصویر کے حرام کے ارتکاب کی ہرگزاجازت نہ ہوگی۔ بیت اللہ شریف میں بھی صرف اورصرف طواف زیارت ہی کے لئے جانے کی اجازت ہوگی۔اوردیگرتمام قسم کے طواف کے لئے جانے کی اجازت نہ ہوگی ۔کیونکہ شریعت کاقاعدہ ہے کہ درء المفاسد اھم من جلب المصالح۔ حالانکہ راقم الحروف نے خود مشاہدہ کیاکہ تمام علماء وصلحاء وعوام و

ڈیوکیمروں کوخاطرمیں نہیں لاتے ۔اوراپن

ے اوقات مسجدین کریمین ہی میں گزارنے کوپسندکرتے ہیں۔ بعض تودس روزہ سنت اعتکاف بھی کرتے ہیں۔ یونہی وڈیوکی حرمت کے فتوی کے مطابق نفلی حج اورعمرہ کے لئے جاناتومطلقاناجائزہوگا۔ اس حرمت کے فتوے کودرست تسلیم کرلیاجائے توامت مسلمہ کے سارے نہیں توعلماء کی ایک بڑی تعدادتوفاسق معلن ٹھہرے گی۔اور پھر نہ توان سے فتوی لیناجائزہوگا، نہ ہی انھیں تقاریروبیانات کے لئے منچ (اسٹیج) پربٹھاناجائزہوگااورنہ ہی نمازکے لئے آگے بڑھاناجائزہوگا کیونکہ ان کاموں میں ان کی تعظیم ہے اورہمیں شریعت مطہرہ نے فاسق کی تعظیم سے وجوباًمنع فرمایاہے۔چنانچہ سارا معاملہ ہی بگڑجائیگا۔ حالانکہ ہم دیکھتے ہیں کہ عرب وعجم ،مشرق ومغرب کے شیوخ جہازوں میں سفرکرتے ہیں، یورپ وامریکاوانگلینڈ وافریقہ میں آئے دن تبلیغ دین کے لئے آتے جاتے رہتے ہیں۔ہندووپاک سے  چند مشاہیر کے نام لکھے جاتے ہیں جونفلی حج وعمرہ کی سعادت حاصل کرنے اورتبلیغ دین کے لئے دنیاکے مختلف ممالک میں آنا جانا ثابت ہے۔مثلاہند سے خلیفۂ اعلیٰحضرت برہان ملت حضرت علامہ برہان الدین رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ، فقیہ اعظم ہند حضرت علامہ شریف الحق امجدی رحمہ اللہ تعالیٰ، محدّثِ کبیرعلاّمہ ضیاء المصطفی اعظمی ، خلیفۂ مفتی ٔ اعظم ہند حضرت علامہ اختررضاخان ازہری ، حضرتامین ملّت امین میاں برکاتی مارہروی متعنا الله تعالى بفیوضهم اسی طرح اوردیگرعلماء ومشائخ اورپاکستان سے مفتی ٔ پاکستان حضرت مفتی وقارالدین رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ حضرت علامہ مفتی عبدالقیوم ہزاروی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ، کثیرالتصانیف جامع المعقول والمنقول حضرت علامہ فیض احمد اویسی ، مناظراسلام شیخ الحدیث والتفسیرصاحب’’ مقام رسول ‘‘ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت علاّمہ منظوراحمد فیضی، استاذالاساتذہ حضرت علامہ محمد حسن حقّانی متعنا الله تعالى بفیوضهم ۔معاذ اللہ ان اور دیگر بے شمار علماء اہلسنت کی تفسیق کس طرح کی جائے ؟
بہرحال اگر مذکورہ بالادلائل کسی کی سمجھ میں نہ آئیں تب بھی کم ازکم اسے اتناتوغورکرناچاہیے کہ فی زمانہ کیاحالات ہیں۔ آج کفاربداطواراسلحے کی جنگ کے ساتھ ساتھ پرنٹ میڈیاخاص طورپرٹی وی اوروڈیوکے ذریعے سے مسلمانوں کے گھروں میں پہنچ کراسلام کے خلاف زہراگل رہیں ہیں۔ معاذاللہ ثم معاذاللہ اپنے باطل دلائل کے ذریعے سے اسلام اورپیغمبراسلام  ﷺ کی بے عیب شان میں گستاخیاں کررہے ہیں۔ یونہی تمام اقسام کے گمراہ  مذاہب نے ٹی وی اوروڈیوکواپنے عقائد باطلہ کی ترویج کاذریعہ بنالیاہے۔جس کاجو دل چاہے بکتاہے۔ ان لوگوں نے مختلف ٹی وی چینلزکے اوقات خریدرکھے ہیں بلکہ قادیانیوں نے توایک عرصے سے پوراچینل شروع کیاہواہے جس پر وہ باقاعدگی سے روزانہ کئی گھنٹے اپنے گمراہ کن عقائد کاپرچارکرتے ہیں۔ راقم الحروف کوکسی نے حال ہی میں خبردی کہ جب ٹی وی پرایک بدنام زمانہ بدمذہب عورت سے سرکاردوعالم  ﷺ  کی زیارت کے دوران سنہری جالیوں میں پرچیاں ڈالنے سے متعلق سوال کیاگیاتواس نے نہایت ہی بے باکی سے جواب دیاکہ وہاں پرچیاں نہ ڈالی جائیں کہ معاذاللہ آپ علیہ الصلوۃ والسلام توامی تھے۔ پڑھنالکھنانہیں جانتے تھے لہذاپرچیاں ڈالنے کاکوئی فائدہ نہیں ۔ اس طرح اہل سنت کے تہواروں کے مواقع پربھی خصوصی پروگرامز پیش کئے جاتے ہیں مگران پروگرامز میں بھی عمومابدمذہب لوگ نام نہاد تہذیب کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنی گمراہ کن بات غلط دلائل سے بیان کرتے ہیں۔ اورفی زمانہ ہمارے معاشرے کایہ حال ہے کہ ٹی وی اوروڈیونئی نسل  کی گُھٹی میں پڑے ہوئے ہیں۔ ٹی وی اوروڈیومعاشرے کے افرادکے لئے تفریح کاسامان بھی ہے اورحصول معلومات کاعمومی ذریعہ بھی ہے ۔ یہ حقیقت ہے کہ لوگ اپنے اوقات اکثرٹی وی کے سامنے ہی گزارتے ہیں۔ لہذاجوکچھ ٹی وی میں دیکھتے ہیں خواہ برادیکھیں یابھلادیکھیں ۔اس سے متاثرہوجاتے ہیں اوررفتہ رفتہ اسے اپنالیتے ہیںاور تہذیب کاحصہ سمجھنے لگتے ہیں۔راقم الحروف نے بعض لوگوں کودیکھا کہ جب تک ان کے گھروں میں ٹی وی نہ تھاوہ اپنی خواتین کے بارے میں نہایت ہی غیورتھے اوران کے پردے کااچھاانتظام کرتے تھے۔لیکن جب سے ٹی وی کی تربیت میں آئے تو رفتہ رفتہ غیرت کاوہ معیارنہ رہابلکہ اسے دقیانوسی سمجھنے لگے۔ چنانچہ یہ کہنابے جانہ ہوگاکہ فی زمانہ ٹی وی معاشرے کاسب سے بڑا  مُربیّ ہے۔لیکن کیسی تربیت کررہاہے ؟یہ کسی سے چھپی ہوئی بات نہیں ہے۔ اگرلوگوں کوٹی وی سے بازرہنے کے لئے کہاجائے تولوگ اس کی طرف بالکل بھی توجہ نہیں کرتے بلکہ اس پردلائل دیتے ہیں کہ اس میں اچھے پروگرامزبھی توہوتے ہیں اورجن پروگرامز کویہ اچھّاکہتے ہیں عموماًان میں وہ پروگرامزہوتے ہیں جودینی رنگ میں پیش کئے جاتے ہیں۔ جن میںاکثربدمذہب علماء خطاب کرتے ہیں یہ لوگ صرف جبہ قبہ ہی پہن کرنہیں آتے بلکہ بسااوقات داڑھی منڈے کوٹ وپتلون بھی پہن کرنُمودارہو جاتے ہیں اورمختلف طریقوں سے عوام کے عقائد پرڈاکہ ڈالتے ہیں۔ اوریہ لوگ اتنی ماہرانہ جعل سازی سے اپنی

بات کہہ جاتے ہیں کہ سادہ لوح عوام ان

کی فریب کاری کو بالکل بھی نہیں سمجھ پاتے۔اوران بدمذہب علماء سے متاثرہوکررفتہ رفتہ ان کے عقائداپنالیتے ہیں۔اکثراس قسم کی باتیں سننے کومل جاتی ہے کہ فلاں شخص نے فلاں بدمذہب کے ٹی وی پروگرام یاوڈیو دیکھ کرگمراہی اختیارکرلی۔بلکہ حال ہی میں ایک ثِقہ شخص نے اطلاع دی کہ لائنزائیریاکراچی میں ایک بدنام زمانہ منکر حدیث نے ایک کیبل سسٹم چلانے والے کوتین فحش چینلزصرف اس لئے کھلوادیئے کہ وہ اس کی وڈیوسی ڈی اپنے کیبل سسٹم پرایسے وقت میں چلائے کہ جب عام طورپرلوگ ٹی وی کے سامنے بیٹھتے ہوں۔ اسی طرح ایک اورثِقہ شخص نے اطلاع دی کہ گلستان مصطفی کراچی میں بھی اسی منکر حدیث نے کیبل سسٹم چلانے والوں کوایک معقول رقم دیکراس بات پرآمادہ کرلیاکہ وہ اس کی وڈیواپنے کیبل سسٹم پرچلائے۔نہ جانے کتنے سادہ لوح  مسلمان ان بھیڑیوں کے شکارہوں گے؟  مگرافسوس اہل سنت کی طرف سے مسلسل خاموشی چھائی ہوئی ہے۔ سوائے چند لوگوں کے کوئی اس بارے میں سوچنے کے لئے بھی تیاّرنہیں ۔اس وقت امتِ مسلمہ فسادکاشکارہورہی ہے۔یہ تووہ معاملہ ہے جب مفتیٰ بہ قول کوچھوڑکرمرجوح قول پربھی فتویٰ دیناجائزہوجاتاہے۔کتب فقہیہ میں اس قسم کی کئی مثالیں مل جاتی ہیں کہ جب علماء نے حالات زمانہ کودیکھتے ہوئے راجح اقوال کوچھوڑکرمرجوح اقوال بلکہ ائمہ ثلاثہ کے اقوال پربھی فتوے دیئے۔ مثلامفتی اعظم ہند رحمہ اللہ تعالی نے جب ملاحظہ فرمایاکہ لوگ مفقووالخبرکے بارے میںمذہب حنفی مذہب پرعمل نہیں کرتے اورگناہ میں مبتلاہوجاتے ہیںتوآپ رحمہ اللہ تعالیٰ نے امام مالک رحمۃ اللہ تعالیٰ کے قول پرفتوی دیا۔حالانکہ مفقودالخبرکے سلسلے میں احناف کامذہب نصوص احادیث پرمشتمل ہے ۔جبکہ امام مالک رحمہ اللہ تعالی کامسلک ابن ابی لیلیٰ رحمہ اللہ تعالی کے قول پرتھااورصاحب فتح القدیررحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ابن ابی لیلی رحمہ اللہ تعالیٰ نے اس سے رجوع کرلیاتھا۔مگرمفتی اعظم ہند رحمہ اللہ تعالیٰ نے پھربھی امت کے احوال کودیکھتے ہوئے فقہی اصولوں کے مطابق اس پرفتوی دیا۔
خاتم الفقہاء علامہ ابن عابدین شامی رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ:
’’فقیہ ابواللیث سمرقندی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ پہلے میں تین باتوں کی ممانعت کافتوی دیاکرتاتھااوراب ان کے جوازکافتوی دیتاہوں۔پہلے میں فتوی دیتاتھاکہ تعلیم قرآن پراجرت لیناحلال نہیں، اسی طرح فتوی دیتاتھاکہ عالم کے لئے جائزنہیں کہ وہ سلطان (بادشاہ)کی صحبت اختیارکرے اورعالم کے لئے جائزنہیں کہ وہ دیہاتوں میں اجرت پروعظ کرنے جائے۔ مگراب تعلیم قرآن کے ضیاع کے خوف ، لوگوں کی حاجت کی اوردیہاتیوں کی جہالت کی وجہ میں نے ان سے رجوع کرلیا۔‘‘                                                             (رسائل ابن عابدین  جلد ۱  صفحہ ۱۵۷  مطبوعہ: سہیل اکیڈمی لاہور)
اسی طرح علم کلام کوعلماء نے شروع میں تونہایت ہی غلط سمجھا کیونکہ اس میں بدمذہبوں کے اعتراض مع دلائل لکھ کرردکیاجاتاتھااورعلماء حقہ خوف کرتے تھے کہیں پڑھنے والے کے دل میں یہ غلط عقائد ہی نہ جڑپکڑجائیں۔لہذااس کی نہایت ہی شدت سے مخالفت کی ۔ امام اہل سنت رحمہ اللہ تعالیٰ لکھتے ہیں کہ:
’’منقول ہے کہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے شاگردحضرت علامہ ابن سیرین رحمہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں دوبدمذہب حاضرہوئے اور عرض کی کہ ہم کچھ آیات کلام پاک آپ کوسناناچاہتے ہیں۔فرمایامیں نہیں سنناچاہتا۔عرض کی کچھ احادیث نبوی  ﷺ  سناتے ہیں۔ فرمایامیں نہیں سننا چاہتا۔انہوں نے اصرارکیاتوفرمایاکہ تم دونوں یہاں سے چلے جاؤ۔ورنہ میں اٹھتاہوں۔آخروہ دونوں خائب وخاسروہاں سے رخصت ہوگئے۔لوگوں نے عرض کی حضوراگران سے کچھ آیات واحادیث سن لیتے توکیاحرج تھا؟ فرمایامیں نے خوف کیاکہ ہوسکتاہے کہ وہ آیات واحادیث کے ساتھ کچھ (فاسد) وضاحت وتاویل لگادیںاوروہ تاویلات میرے دل میں رہ جائیں۔اورمیں ہلاک ہوجاؤں۔
(فتاوی رضویہ جدید  ج۱۵  ص ۱۰۶  مطبوعہ: رضافاؤنڈیشن  لاہور)
جامع المعقول المنقول عمدۃ المتکلمین والمحققین علامہ عبدالعزیزپرہاروی رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’امام ابویوسف رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایاکہ جوعلم کلام میں مشغول ہواوہ زندیق ہوا۔انھیں کے بارے ہے کہ ایک مرتبہ آپ رحمہ اللہ تعالیٰ ہارون رشیدکے دربارمیں تشریف لائے تودوآدمی علم کلام میں مناظرہ کررہے تھے۔ہارون رشیدنے کہاکہ آپ ان کے درمیان فیصلہ کیجئے ۔توآپ رحمہ اللہ تعالیٰ نے ارشادفرمایاکہ میں لایعنی معاملات میں گفتگوکرناپسندنہیں کرتا۔توہارون رشید نے آپ کاطرزعمل دیکھتے ہوئے آپ کی خدمت میں ایک لاکھ درہم پیش کرنے کاحکم دیا۔ سیدناامام شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ علماء متکلمین کے بارے میں میرایہ فیصلہ ہے کہ ان کی سخت پٹائی کی جائے اورانھیں اونٹ پربٹھاکر شہربھرمیں گھماؤں اورساتھ ساتھ اعلان کرتاجاؤں کہ کتاب وسنت کوچھوڑنے اورعلم کلام میں مشغول ہونے والے کی یہ سزاہے۔شیخ الاسلام المحدث الص

وفی عبداللہ الانصاری الھروی رحمہ ا

للہ تعالیٰ علم کلام کی مذمت میں ایک کتاب تصنیف فرمائی اورعلماء کلام سے غیر عادل ہونے کی وجہ سے کوئی حدیث نہ لی۔ نیزفرمایاکہ میں نے قاضی ابوبکرنیسابوری کوپایا۔باوجودیہ کہ حدیث میں ان کی سندبہت عالی تھی مگرمیں نے ان سے کوئی حدیث نہ لی کیونکہ وہ متکلم تھے اوراشعری مذہب کی پیروی کرتے تھے۔امام ابوبکرشاشی رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایاکہ علماء کلام اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات میں کثرت خوض کی وجہ سے اللہ تعالیٰ سے جھگڑتے ہیں۔ بعض مشائخ نے فرمایاکہ اگرکوئی علماء اسلام کے لئے وصیت کرے تو اس میں متکلمین داخل نہ ہونگے۔                                                (نبراس  ص ۲۳۔۲۴  مطبوعہ: مکتبہ حقانیہ  ملتان)  
    مگرجب علماء اسلام نے دیکھاکہ اب اگرعلم کلام کونہ اپنایاگیااوربدمذہبوں کے جوابات اسی رنگ میں نہ دیئے گئے توعامۃ المسلمین کے عقائد فاسد ہوجائیں گے توعوام مسلمین کوگمراہی سے بچانے کے لئے باقاعدہ علماء کے لئے عقائدکلامیہ جاننے کے وجوب پرفتوی دیا۔ سیدناامام غزالی نے منطق کوفرض کفایہ فرمایا۔چنانچہ علماء اہل سنت کثرھم اللہ تعالیٰ نے علم کلام میں کتابیں تصنیف فرمائیں حتی کہ پوری پوری تفاسیرقرآن اسی مذاق پرلکھی گئیں ۔ فقہاء کرام نے اپنے فتاوی میں اس کاباقاعدہ اہتمام فرمایا۔خودامام اہل سنت اعلیحضرت فاضل بریلوی رحمہ اللہ تعالیٰ نے فتاوی رضویہ کے نویں حصے کواسی کام کے مختص فرمایا۔ اوراب کئی عشروں سے مدارس اسلامیہ میں علم کلام کوباقاعدہ ایک اہم ترین فن کی حیثیت سے پڑھایاجاتاہے۔آج ٹی وی اوروڈیوکابھی یہی مسئلہ ہے کہ نئی نسل کوان سے روکانہیںجاسکتا۔ اورجدیدتہذیب کی شکل میں یہ اشیاء کتنی اہمیّت کی حامل ہیںوہ  کسی  ذی عقل سے مخفی نہیں۔ لوگوں کی عادات، رسم ورواج ، اخلاق وکرداربلکہ سادہ لوح عوام کے عقائدبھی ٹی وی اوروڈیوسے بڑی حدتک متأثرہوتے ہیں۔ چنانچہ حکمت کاتقاضابھی یہی ہے کہ ان ذرائع سے جہاں تک ممکن ہو اصلاحِ عقائدواعمال کاکام لیاجائے۔اوراس کے لئے جائزامورکے ٹی وی پروگرامزاوروڈیوفلم کی عدمِ حرمت کے فتویٰ پرعمل کرتے ہوئے علماء اہل سنت آگے بڑھ کراس ظلمت کدہ میں سچے عقائدواعمال کاچراغ روشن کریں۔ اورایساکرناضروری ہے کہ امت کوفسادسے بچانے اوران کے احوال کی اصلاح کرنے کامؤثر ترین ذریعہ ہے۔ اوراہل علم سے مخفی نہیں کہ اصلاحِ ا مّت اورفسادِا مّت دونوں ہی فتویٰ کے تبدیلی کاباعث ہیں۔
واﷲ تعالى أعلم ورسوله أعلم عزوجل وصلى اﷲتعالى عليه وآله وسلم
                                                                                   کتبہ:محمد ابوبکر صدیق القادری الشاذلی
                                                                           ۲۵ ذوالحجۃ  ۱۴۲۴؁ھ  ۱۸فروری  ۲۰۰۴؁ء

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔