جمعہ، 9 اگست، 2019

فطرے کی رقم مدرسہ میں لگانا کیسا؟

0 comments
*{فطرے کی رقم مدرسہ میں لگانا کیسا؟ }*
◆‐‐‐‐‐‐‐‐‐‐‐••✦•✿ ✿•✦••‐‐‐‐‐‐‐‐‐‐‐‐◆

*السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ*

_*مفتیان کرام سے فتوی طلب ہے ،ہم اہل سنت  دو بڑے مکتب چلاتے ہیں جہاں سات گھنٹے تک پڑھائی جاری رہتی ہے اور  300 سے زائد بچے زیر تعلیم ہے ،اب تک ہم مدرسے اخراجات کی رقم اپنی جانب سے لگاتے تھےحالات کی خرابی سے اس سال ہم نے پچاس روپے فیس ہر بچوں پر عائد کی سواۓ یتیم اور غریب بچوں کے اسکے باوجود اساتذہ کی تنخواہ نہ نکلنے پر ہم نے فطرہ جمع کیا ہے جس سے ہم پانچ مہینہ مدرسہ چلا سکتے ہیں ،اب لوگوں نے الزام لگانہ شروع کر دیا ہے کہ فیس لیتے ہوے تم فطرہ نکالتے ہو جبکہ فیس کے رقم سے ہم ایک ہی مدرس کی تنخواہ دے پاتے ہیں باقی دو لوگوں کی تنخواہ ان شاء اللہ فطرہ کی رقم سے دینگے مفتیان کرام اس پر رہنمائی فرماۓ کہ کیا ہم نےجو فطرہ لیا وہ غلط ہے یا صحیح اس پر حوالہ بھی دے تاکہ آپ کے فتوے کو لوگوں کے سامنے رکھا جاے*_

*سائل سلمان ہدوی ،مہاراشٹرا .بھیونڈی*
*9552016058*

‌‏   ◆‐‐‐‐‐‐‐‐‐‐‐••✦•✿ ✿•✦••‐‐‐‐‐‐‐‐‐‐‐‐◆
*وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ تعالی وبرکاتہ*
*الـــــــــــــــــــجـــــــــــــــــــواب*
*بعون الملک الوہاب*

*_محترم و مکرم ہدوی صاحب قبلہ امید قوی آپ بخیر و عافیت سے ہونگے، امید ہے ہمارے تمام تحریروں کو بغور مطالعہ فرمائیں گے، پہلے یہ عرض کرنا مناسب سمجھتا ہوں کہ صدقہ فطر کے مصارف وہی ہیں جو زکوۃ کے ہیں۔_*
*📄(بحوالہ : عالمگیری ج۱ ص۱۹۴،حوالہ: فیضان زکوة)*

_*یعنی جن کو زکوۃ دے سکتے ہیں انہیں فطرہ بھی دے سکتے ہیں اور جن کو زکوۃ نہیں دے سکتے ان کو فطرہ بھی نہیں دے سکتے۔ لہذا زکوۃ کی طرح صدقہ فطر کی رقم بھی حیلہ شرعی کے بعد مدارس وجامعات اور دیگر دینی کاموں میں استعمال کی جاسکتی ہے۔*_
*📙(بحوالہ: فتاوی امجدیہ ج۱ص۳۷۶ملخصا،حوالہ: فیضان زکوة)*
‌‏  
*_' تعلیم حفظ،  درس نظامی، ناظرہ،  دار الافتاء، و دیگر دینی تعلیم میں زکوٰۃ کے پیسے حیلہ شرعی کرکے بالکل لگا سکتے ہیں، لیکن یاد رکھیں کہ اسکے لیے دو شرط ہیں, پہلا : ضرورت شدید ہ، دوسرا : مجبوری_*
_*یعنی کے اسکی  شدید ضرورت ہو اور ایسی مجبوری ہو کہ زکوٰۃ فطرہ کے علاوہ دیگر رقم کی کوئی گنجائش نا ہو، اگر ہو بھی تب بھی پوری نا ہوتی ہو، اگر ایسا ہے تو حیلہ شرعی کرنا جائز ہے ورنہ ناجائز ہے*_
*ماخوذ از📘 فتاوی بحر العلوم جلد دوم ص ۱۸۲,۱۸۶ ,۲۰۸*

*_اب اگر حیلہ شرعی کرنے کے لیے مذکورہ  دونوں شرط پا لیے جائیں تو حیلہ شرعی کا طریقہ یہ ہے کہ کسی شرعی فقیر کو زکوۃ کا مالک بنادیں پھر وہ(آپ کے مشورے پر یاخود) اپنی طرف سے کسی نیک کام میں خرچ کرنے کے لئے دے دے ۔ تو ان شآء اللہ عزوجل دونوں کو ثواب ہوگا ۔ فقہائے کرام رحمہم اللہ تعالی ارشاد فرماتے ہیں،زکوۃ کی رقم مردے کی تجہیز وتکفين يا مسجدکی تعمير ميں صرف نہيں کر سکتے کہ تمليک فقير ( یعنی فقیر کو مالک کرنا)نہ پائی گئی ۔ اگر ان امور ميں خرچ کرنا چاہيں تو اس کا طریقہ يہ ہے کہ فقير کو ( زکوۃ کی رقم کا ) مالک کرديں اور وہ ( تعمير مسجد وغيرہ ميں )صرف کرے، اس طرح ثواب دونوں کو ہو گا ۔_*
*📔(بحوالہ :ردالمحتار،کتاب الزکوۃ،ج۳،ص۳۴۳ حوالہ: فیضان زکوة)*

_*اگر حیلہ کرنے کیلئے شرعی فقير کو زکوۃ دی جائے اور وہ لے کر رکھ لے تو اب اس سے نیک کاموں کیلئے جبرا نہيں لے سکتے کيونکہ اب وہ مالک ہوچکا اور اسے اپنے مال پر اختيار حاصل ہے۔*_
*📕(بحوالہ : فتاوی رضويہ مخرجہ ،ج۱۰، ص ۱۰۸ ،حوالہ: فیضان زکوة)*

_*اگر بھروسے کا کوئی آدمی نہ مل سکے تو اس کا ممکنہ طریقہ یہ ہے کہ اگر پانچ ہزار روپے زکوۃ بنتی ہو تو کسی شرعی فقیر کے ہاتھ کوئی چیز مثلاچند کلو گندم پانچ ہزار کی بیچی جائے اور اسے سمجھا دیا جائے کہ اس کی قیمت تمہیں نہیں دینی پڑے گی بلکہ ہم تمہیں رقم دیں گے اسی سے ادا کردینا ۔ جب وہ بیع قبول کرلے تو گندم اسے دے دی جائے ، اس طرح وہ آپ کا پانچ ہزار کا مقروض ہوگیا ۔اب اسے پانچ ہزار روپے زکوۃ کی مد میں دیں جب وہ اس پر قبضہ کر لے تو زکوۃ ادا ہوگئی ،پھر آپ گندم کی قیمت کے طور پر وہ پانچ ہزار واپس لے لیں ،اگر وہ دینے سے انکار کرے تو جبرا (زبر دستی)بھی لے سکتے ہیں کیونکہ قرض زبردستی بھی وصول کیا جاسکتا ہے ۔*_
*📘(بحوالہ : الدر المختار،کتاب الزکوۃ،ج۳، ص۲۲۶،ماخوذازفتاوی امجدیہ،ج۱،ص۳۸۸،حوالہ: فیضان زکوة)*

*واللہ تعالیٰ اعلم ورسولہ اعلم عزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم*
‌‏   ◆‐‐‐‐‐‐‐‐‐‐‐••✦•✿ ✿•✦••‐‐‐‐‐‐‐‐‐‐‐‐◆
*کتــبــہ: ☜* _*اسیر حضور اشرف العلماء ابــو حـــنـــیـــفـــہ مـــحـــمـــد اکــــبــــر اشـــرفـــی رضـــوی، مانـــخـــورد مـــمـــبـــئـــی*_
*رابطہ نمبر* _*۹۱۶۷۶۹۸۷۰۸*_
*۸ شوال المکرم، ۰۴۴۱؁ھ*
*اسماعیلی گروپ*
◆‐‐‐‐‐‐‐‐‐‐‐••✦•✿ ✿•✦••‐‐‐‐‐‐‐‐‐‐‐‐◆
*1⃣الجواب صحیح✅✅✅*
*العبد الاثیم خاکسار حضرت علامہ مولانا مفتی ابوالصدف محمد صادق رضاصاحب قبلہ مدظلہ العالی والنورانی مقام؛ سنگھیاٹھاٹھول (پورنیہ)  خادم؛ شاہی جامع مسجد پٹنہ  بہار الھند*
*بتاريخ، ۹ شوال المکرم ٠۴۴١؁ھ*
*رابطــــہ؛ 7634812623*
◆ـــــــــــــــــ▪💐▪ــــــــــــــــــ◆
2⃣ماشاء اللہ بہت عمدہ 💐
*✅الجواب صحیح وصواب* 
*محمد رضا امجدی ،دار العلوم چشتیہ رضویہ کشن گڑھ اجمیر شریف ,مقام ھر پوروا باجپٹی سیتا مڑھی بھار*
◆ـــــــــــــــــ▪🌼▪ــــــــــــــــــ◆
*3⃣الجواب صحیح ✅✅✅*
ماشاء اللہ 🌹🌹🌹
*فخـرِ جامعہ امام احمـد رضــا رتنــا گیــری حضــرت عـلامــہ مفـتـی محـمــد الفــاظ قـــریشـــی نجــمــی صـــاحـــب قبـــلـــہ مـــدظلــہ العــــالـــی والنـــورانــــی*
*بتاريخ، ❾ شوال المکرم ٠۴۴١؁ھ*
*رابطــــہ؛ 8105093839*
◆ـــــــــــــــــ▪💓▪ــــــــــــــــــ◆
*4⃣الجواب صحیح✅✅✅*
*حضرت علامـہ مفـتـى محمـدمشیــر اســد رشیـــدی امجـدی  صاحب قبلـہ مـدظلہ العالی والنورانی*
*جنتا ہـاٹ آسجـہ مـوبـیـــہ تھانــہ بائـسـی ضـلـع  پـورنـیــہ {بـہـــار}*
*بتاریخ ۹ شوال المکرم ٠۴۴١؁ھ*
*رابطـــہ؛ 9565504642*
" حیلۂ شرعی اس وقت جائز ہے جبکہ ضرورت شدیدہ کہ اس کے بغیر کام تکمیل تک نہ پہونچ پائے گا اور اس کے علاوہ کوئی صورت نہیں تب جائز ورنہ ناجائز،
◆ـــــــــــــــــ▪🌹▪ــــــــــــــــــ◆
*5⃣✅الجواب صحیح والمجیب نجیح*
*حضرت علامہ مفتی محمد ہاشم رضا مصباحی صاحب قبلہ مدظلہ العالی والنورانی صدر شعبئہ افتاء دارالعلوم جامعہ رضویہ شاہ علیم دیوان شیموگہ کرناٹکا؛*
*بتاريخ، ۹ شوال المکرم ٠۴۴١؁ھ*
*رابطــہ؛ 917760517611+)*
*اگر وہاں صرف دینی تعلیم دی جاتی ہے اور واقعی محلہ کے لوگوں سے مدرسین کی تنخواہیں وصول کرنے میں دشواری ہوتی ہے تو بصورت مجبوری مکتب میں بعد حیلہ شرعی رقم لگا سکتے ہیں، شرعی کونسل آف انڈیا بریلی شریف کے فیصلہ میں بھی ایسا ہی ہے*
◆ـــــــــــــــــ▪🌼▪ــــــــــــــــــ◆
*6⃣ماشاءاللہ، سبحان الله، الجواب صحیح✅*
*غـلام شمـس ملــت حضرت علامہ مولانا محمد سلطان رضا شمسی صاحب قبلہ مدظلہ العالى والنورانى خادم التدريس وافتاء مدرسہ شمسيہ فيض رضا لپٹولى دهنوشا {نیپال}*
*مورخہ، ۹ شوال المكرم ٠۴۴١؁ھ*
*رابطــہ؛ 00919798447660*
◆ــــــــــــــــ▪♦▪ــــــــــــــــ◆
*7⃣✅الجواب' ھوالجواب واللہ ھوالمجیب المصیب المثاب*
*فقط محمد آفتاب عالم رحمتی مصباحی دہلوی خطیب و امام جامع مسجد مہا سمند (چھتیس گڑھ)*
◆ــــــــــــــــ▪✨▪ــــــــــــــــ◆
*8⃣✅الجواب صحیح  والمجیب مصیب*
*حضرت علامہ مولانا شاد مصباحی صاحب قبلہ مدظلہ العالی*
◆ــــــــــــــــ▪✨▪ــــــــــــــــ◆
*9⃣✅الجواب صحیح والمجیب نجیح* 
*مولانا محمد عظیم رضا برکاتی، مرادابادی*
◆ــــــــــــــــ▪✨▪ــــــــــــــــ◆
*0⃣1⃣الجواب صحیح✅*
*خلیفہ شیخ الاسلام مفتی عبدالوہاب رضوی اشرفی صاحب قبلہ، خطیب و امام شاہی جمعہ مسجد، احمد آباد*
◆ــــــــــــــــ▪✨▪ــــــــــــــــ◆
*1⃣1⃣الجواب صحیح✅✅*
*حضــرت عـلامـہ مفـتـی محـمـد جعـفـر علـی صـدیقـی رضـوی صاحب قبلہ مد ظلہ العالی والنورانی کرلوسکرواڑی سانگلی مہاراشٹر*
*بتاريخ، ۹ شوال المکرم ٠۴۴١؁ھ*
*رابطـہ، 📞 8530587825*
فتاوی رضویہ شریف جلد دہم صفحہ ۲۵۴- ۲۵۵ مطبوعہ جدید میں ہے کہ:
"مدرسہ اسلامیہ اگر صحیح خاص اہل سنت کاہو،  نیچریوں،  وہابیوں،  قادیانیوں،  رافضیوں،  دیو بندیوں وغیر ہم مرتدین کا نہ ہو،  تو اس مال زکوۃ کو  اس شرط پر دیا جا سکتا ہے کہ مہتمم اس مال کو جدا رکھے،  اور خاص تملیک فقیر کے مصارف میں صرف کرے،  مدرسین یا دیگرملازمین کی تنخواہ اس سے نہیں دی جا سکتی - نہ مدرسہ کی تعمیر ، یا مرمت ، یا فرش وغیرہ میں صرف ہو سکتی ہے،  نہ یہ ہو سکتا ہے کہ جن طلبہ کو مدرسہ سے کھانا دیا جاتا ہے اس روپئے سے کھانا پکا کر ان کو کھلایا جائے،  کہ یہ صورت اباحت ہے اور زکوۃ میں تملیک لازم،  ہاں یوں کر سکتے ہیں کہ جن طلبہ کو کھانا دیا جاتا ہے ان کو نقد روپیہ بہ نیت زکوۃ دے  کر مالک کردیں  ، پھر وہ اپنے کھانے کےلئے واپس دیں،
یا جن طلبہ کا وظیفہ نہ اجرۃ بلکہ محض بطور امداد ہے ان کے وظیفے میں دیں،  یاکتابیں خرید کر طلبہ کو ان کا مالک کردیں،  ہاں اگر روپیہ بہ نیت زکوۃ کسی مصرف زکوۃ  کو دے کر مالک کر دیں وہ اپنی طرف سے مدرسہ کو دے دے تو تنخواہ مدرسین و ملازمین وغیرہ جملہ مصارف مدرسہ میں صرف ہو سکتا ہے - "
اور اسی جگہ صفحہ ۲۹۱ پر ہے کہ:
" صدقئہ فطر مصارف زکوۃ اور تمام احوال میں زکوۃ کی طرح ہے -" واللہ اعلم -
‌‏   ◆‐‐‐‐‐‐‐‐‐‐‐••✦•✿ ✿•✦••‐‐‐‐‐‐‐‐‐‐‐‐◆
*پوسٹ میں نام، مبائل نمبر یا کوئی بھی ایک لفظ ایڈیٹ (ترمیم) کرنے کی حماقت نا کریں*


0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔