*💎بھر دو جھولی میری یامحمد کہنا کیسا💎*
الحلقة العلمية ٹیلیگرام :https://t.me/alhalqatulilmia
محمد ی: مہربانی فرما کر غور کرنا ہم کیابولتےہیں
شرک#1
بھر دو جھولی میری یا محمد صلی الله علیه وسلم
القرآن
"اےنبی صلی الله عليه وسلم کہہ دیجئے انسانوں سےکےتمھارےنفع و نقصان کااختیار صرف الله کےپاس ہے."
(سورہ جن: آیت21)
شرک#2
شاہ مدینہ، سارے نبی تیرے در کےسوالی
القرآن
"اےلوگوں، تم صرف میرے در کےفقیر ہو."
(سورہ فاطر:15)
شرک #3
جومانگ در مصطفی سےمانگ
القرآن
"جو مانگو صرف مجھ سےمانگو،صرف میں تمھاری دعا قبول کرتاہوں."
(سورہ مومن:60)
شرک#4
مولا علی میری کشتی پار لگا دے
القرآن
"مومن جب کشتی میں سوار ہوتے ہیں تو الله کو پکارتے ہیں."
(العنکبوت 65)
(اسکا رد چاہیے برائے مہربانی ، کیا صحیح ہے مع حوالہ راہنمائی فرمائیں)
حافظ توحید عالم اشرفی پٹنہ بہار
ا__________(❣)__________
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
الجواب بعون الملک الوھاب۔۔۔
اللہ کی عطا سے ہیں مصطفٰے مددگار
ہیں انبیاء مدد پر ہیں اولیاء مددگار
ان معترضین کو شرک تک نہیں پتہ ہے ، کس منہ سے بھونکتے ہیں سمجھ سے بالاتر ہے، ان معترضین کے اعتراضات پر ایک دو نہیں، بلکہ سیکڑوں رسالے بطور جواب شائع ہو چکی ہے، اس پر مختصراً کلام کرتا ہوں
پہلے آپ یہ جانیں کہ
یہ لوگ ابلیس کی اولادیں ہیں، جس طرح شیطان نے امام فخر الدین رازی علیہ الرحمہ کی دلائلوں کو ٹھکرا دیا تھا اسی طرح یہ عقل کے اندھے بہرے تمام دلائلوں کو ٹھکرا دیتے ہیں، چاہیں آپ جتنی دلائل دے دیں ان پر مہر لگ چکی ہے، مناظروں میں منہ کالا ہوا ہے تب بھی نہیں سدھرے ، غالباً سدھریں گے بھی نہیں،
دوسری بات مذکورہ بالا آیتوں کا خلاصہ کیا جائے گا لیکن آپ پہلے یہ سمجھیں کہ شرک کا معنیٰ کیا ہے:
*(📕قال اللہ تعالی فی القرآن المجید :وَ لَا تَدْعُ مَعَ اللّٰهِ اِلٰهًا اٰخَرَۘ-لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ ۫-كُلُّ شَیْءٍ هَالِكٌ اِلَّا وَجْهَهٗؕ-لَهُ الْحُكْمُ وَ اِلَیْهِ تُرْجَعُوْنَ۠)*
ترجمۂ:"اور الله کے ساتھ دوسرے خدا کی عبادت نہ کر ،اس کے سوا کوئی معبود نہیں ۔اس کی ذات کے سوا ہر چیز فانی ہے ، اسی کا حکم ہے اور اسی کی طرف تم پھیرے جاؤ گے۔"
*(📙پ۲۰، القصص:۸۸)*
یعنی اے حبیب ﷺ جس طرح آپ پہلے بھی اللہ تعالیٰ کی ہی عبادت کر رہے تھے اسی طرح آئندہ بھی کرتے رہیں اور اسی پر قائم رہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کے سوا اور کوئی عبادت کا مستحق نہیں اور اس کے معبود ہونے کی ایک دلیل یہ ہے کہ اس کی ذات کے سوا ہر چیز فانی بِالذّات ہے،دوسری دلیل یہ ہے کہ مخلوق کے درمیان اسی کا حکم نافذ ہے اور تیسری دلیل یہ ہے کہ آخرت میں اسی کی طرف تمام لوگ پھیرے جائیں گے اور وہی اعمال کی جزا دے گا۔یہاں بھی یہ ممکن ہے کہ بظاہر خطاب رسول ﷺ سے ہو اور سنایا امت کو جا رہاہو۔ معلوم ہوا کہ غیرِ خدا کو خدا سمجھ کر پکارنا شرک ہے کیونکہ یہ غیر خدا کی عبادت ہے ۔
*(📓صراط الجنان فی تفسیر القرآن)*
’’ شرک ‘‘ یعنی ، اللہ تَعَالٰی کی اُلُوہِیَّت میں کسی کو شریک جاننا جیسے مجوسی (یعنی آتَش پرست) اللہ کے سوا واجب الوجود مانتے ہیں یا اللہ کے علاوہ کسی کو عبادت کے لائق جاننا جیسے بتوں کے پجاری۔
*(📚بحوالہ : شرح عقائد نسفیہ ص۲۰۱، حوالہ : العطایا النبویہ فی الفتاوٰی الرضویہ ج ۲۱ ص۱۳۱ ،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن جامعہ نظامیہ رضویہ لاہور )*
آدَمی حقیقۃً کسی بات سے مُشرِک نہیں ہوتا جب تک غیرِ خدا کو معبود (یعنی عبادت کے لائق) یا مستقل بالذّات ( یعنی اپنی ذات میں غیرمحتاج۔ مثلاً یہ عقیدہ رکھنا کہ اس کا علم ذاتی ہے) و واجبُ الوُجُود نہ جانے۔
*(📙العطایا النبویہ فی الفتاوٰی الرضویہ ج ۲۱ ص۱۳۱ ،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن جامعہ نظامیہ رضویہ لاہور)*
اللہ کے سوا کسی کو واجِبُ الوُجُود یامستحقِ عبادت ( عبادت کے لائق ) جاننا یعنی اُلُوہِیَّت میں دوسرے کو شریک کرنا اور یہ کفر کی سب سے بد ترین قسم ہے۔ اس کے سوا کوئی بات کیسی ہی شدید کفر ہو حقیقۃً شرک نہیں۔
*(📗بہارِ شریعت ج۱ ح اول ص۱۸۳ مطبوعہ المدینۃ العلمیہ)*
*(مزید تفصیلات کیلئے حضرت مفتی احمد یار خان علیہ الرحمہ کی کتاب ’’ علم القرآن ‘‘ کا مُطالعہ فرمایئے)*
معترضین کے پیش کردہ چار آیتوں کا خلاصہ۔۔۔
*(اول #1 ::::: قُلْ اِنِّیْ لَاۤ اَمْلِكُ لَكُمْ ضَرًّا وَّ لَا رَشَدًا قُلْ اِنِّیْ لَنْ یُّجِیْرَنِیْ مِنَ اللّٰهِ اَحَدٌ ﳔ وَّ لَنْ اَجِدَ مِنْ دُوْنِهٖ مُلْتَحَدًاۙ)*
ترجمۂ : تم فرماؤ:بیشک میں تمہارے لئے کسی نقصان اورنفع کا مالک نہیں ہوں ۔ تم فرماؤ: یقینا ہرگز مجھے اللہ سے کوئی نہ بچائے گا اور ہرگز اس کے سوا کوئی پناہ نہ پاؤں گا۔
*(📗سورۃ الجن،آیت نمبر ۲۱, ۲۲)*
{قُلْ: تم فرماؤ۔} یعنی اے حبیب ﷺ آپ عرب کے ان مشرکین سے فرما دیں جو آپ کی نصیحت آپ کی طرف پھیر رہے ہیں کہ میں تمہارے کسی دینی اور دُنْیَوی نفع نقصان کا مالک نہیں کیونکہ ان چیزوں کا (حقیقی) مالک وہ اللّٰہ ہے جو ہر چیز کا مالک ہے۔
*( 📓تفسیر طبری، الجن، تحت الآیۃ: ۲۱، ۱۲ / ۲۷۴)*
{قُلْ: تم فرماؤ۔} یعنی اے حبیب ﷺ آپ ان مشرکین سے فرما دیں کہ بالفرض اگر میں اللّٰہ تعالیٰ کے حکم کی مخالفت کروں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہراؤں تو ہرگز مجھے مخلوق میں سے کوئی اللّٰہ کے قہر اور ا س کے عذاب سے نہ بچاسکے گا اور نہ ہی کوئی مددگار میری مدد کرے گا اور میں سختیوں کے وقت ہرگز اس کے سوا کوئی پناہ نہ پاؤں گا۔
*( 📙روح البیان، الجن، تحت الآیۃ: ۲۲، ۱۰ / ۱۹۹، تفسیر طبری، الجن، تحت الآیۃ: ۲۲، ۱۲ / ۲۷۴، ملتقطاً)*
حضرت نوح اور حضرت صالح علیہما السلام نے بھی اپنی قوموں سے اسی طرح فرمایا تھا، چنانچہ جب حضرت نوح علیہ السلام سے ان کی قوم کے لوگوں نے غریب مسلمانوں کو اپنے آپ سے دور کرنے کا مطالبہ کیا تو انہیں حضرت نوح علیہ السلام نے یہ جواب دیا: ’’
*(📘وَ یٰقَوْمِ مَنْ یَّنْصُرُنِیْ مِنَ اللّٰهِ اِنْ طَرَدْتُّهُمْؕ-اَفَلَا تَذَكَّرُوْنَ‘‘*
*(📙ہود:۳۰)*
ترجمۂ: اور اے میری قوم! اگر میں انہیں دور کردوں تو مجھے اللّٰہ سے کون بچائے گا؟ تو کیا تم نصیحت حاصل نہیں کرتے؟
اورحضرت صالح علیہ السلام نے اپنی قوم سے فرمایا: ’’
*(📙یٰقَوْمِ اَرَءَیْتُمْ اِنْ كُنْتُ عَلٰى بَیِّنَةٍ مِّنْ رَّبِّیْ وَ اٰتٰىنِیْ مِنْهُ رَحْمَةً فَمَنْ یَّنْصُرُنِیْ مِنَ اللّٰهِ اِنْ عَصَیْتُهٗ‘‘*
*(📕ہود:۶۳)*
ترجمۂ: اے میری قوم! بھلا بتاؤ کہ اگر میں اپنے رب کی طرف سے روشن دلیل پر ہوں اور اس نے مجھے اپنے پاس سے رحمت عطا فرمائی ہو تو اگر میں اس کی نافرمانی کروں تو مجھے اس سے کون بچائے گا؟
*(دوم #2:::: یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اَنْتُمُ الْفُقَرَآءُ اِلَى اللّٰهِۚ-وَ اللّٰهُ هُوَ الْغَنِیُّ الْحَمِیْدُ)*
ترجمۂ : اے لوگو!تم سب اللہ کے محتاج ہواور اللہ ہی بے نیاز ، تمام خوبیوں والا ہے۔
*(📕سورہ فاطر، آیت نمبر ۱۵)*
*{یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اَنْتُمُ الْفُقَرَآءُ اِلَى اللّٰهِ: اے لوگو!تم سب اللہ کے محتاج ہو۔}*
اگرچہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ ہر چیز اللہ تعالیٰ کی محتاج ہے لیکن اس آیت میں بطورِ خاص انسانوں کو اس لئے مُخاطَب کیا گیا کہ انسان ہی مالداری کا دعویٰ کرتے اور اسے اپنی طرف منسوب کرتے ہیں ۔آیت کا معنی یہ ہے کہ اے لوگو! مخلوق میں سے تم سب سے زیادہ اپنی جان،اہل و عیال ،مال اورتمام اُمور میں اللہ تعالیٰ کے فضل واحسان کے حاجت مند ہو ،تمہیں پلک جھپکنے بلکہ اس سے بھی کم مقدار میں اللہ تعالیٰ سے بے نیازی نہیں ہو سکتی، اور اللہ تعالیٰ ہی اپنی مخلوق سے بے نیاز ہے، وہ ان کا حاجت مند نہیں اور وہی مخلوق پر اپنے احسانات اور انعامات کی وجہ سے تمام تعریفوں کا مستحق ہے ۔
*( 📒صاوی، فاطر، تحت الآیۃ: ۱۵، ۵ / ۱۶۹۲، خازن، فاطر، تحت الآیۃ: ۱۵، ۳ / ۵۳۲، ملتقطاً)*
حضرت ذُوالنُّون علیہ الرحمہ نے فرمایا کہ مخلوق ہر دم اور ہر لحظہ اللہ تعالیٰ کی محتاج ہے اور کیوں نہ ہوگی کہ ان کی ہستی اور ان کی بقا سب اس کے کرم سے ہی تو ہے
*(📗 مدارک، فاطر، تحت الآیۃ: ۱۵، ص۹۷۵)*
*(📘سوم #3 :::: وَ قَالَ رَبُّكُمُ ادْعُوْنِیْۤ اَسْتَجِبْ لَكُمْؕ-اِنَّ الَّذِیْنَ یَسْتَكْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِیْ سَیَدْخُلُوْنَ جَهَنَّمَ دٰخِرِیْنَ۠؛)*
ترجمۂ : اور تمہارے رب نے فرمایا مجھ سے دعا کرو میں تمہاری دعا قبول کروں گا بیشک وہ جو میری عبادت سے تکبر کرتے ہیں عنقریب ذلیل ہو کرجہنم میں جائیں گے۔
*(📕سورۃ المومن آیت ۶۰)*
امام فخر الدین رازی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں :یہ بات ضروری طور پر معلوم ہے کہ قیامت کے دن انسان کو اللہ تعالیٰ کی عبادت سے ہی نفع پہنچے گا اس لئے اللہ تعالیٰ کی عبادت میں مشغول ہونا انتہائی اہم کام ہے اور چونکہ عبادات کی اَقسام میں دعا ایک بہترین قِسم ہے اس لئے یہاں بندوں کو دعا مانگنے کا حکم ارشاد فرمایا گیا۔
*(📗 تفسیرکبیر، المؤمن، تحت الآیۃ: ۶۰، ۹ / ۵۲۷)*
اس آیت میں لفظ ’’اُدْعُوْنِیْۤ ‘‘ کے بارے میں مفسرین کا ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد دعا کرنا ہے۔اس صورت میں آیت کے معنی ہوں گے کہ اے لوگو! تم مجھ سے دعا کرو میں اسے قبول کروں گا۔ اور ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد’’ عبادت کرنا ‘‘ ہے ،اس صورت میں آیت کے معنی یہ ہوں گے کہ تم میری عبادت کرو میں تمہیں ثواب دوں گا۔
*(📔تفسیرکبیر، المؤمن، تحت الآیۃ: ۶۰، ۹ / ۵۲۷، جلالین، غافر، تحت الآیۃ: ۶۰، ص۳۹۵، مدارک، غافر، تحت الآیۃ: ۶۰، ص۱۰۶۳، ملتقطاً)*
دعا مانگنے کی ترغیب اور ا س کے فضائل: اس آیت سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا مانگنی چاہئے ،کثیر اَحادیث میں بھی دعا مانگنے کی ترغیب دی گئی ہے،یہاں ان میں سے دو اَحادیث ملاحظہ ہو
حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عنہما سے روایت ہے،حضورﷺ نے ارشاد فرمایا’’دعا ان مصیبتوں میں نفع دیتی ہے جو نازل ہو گئیں اور جو ابھی نازل نہیں ہوئیں ان میں بھی فائدہ دیتی ہے ،تو اے لوگو! تم پر لازم ہے کہ اللہ تعالیٰ سے دعا کرو
*( 📓مستدرک، کتاب الدعاء والتہلیل۔۔۔ الخ، الدعاء ینفع ممّا نزل وممّا لم ینزل، ۲ / ۱۶۳، الحدیث: ۱۸۵۸)*
حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ عنہ سے روایت ہے،رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’جو آدمی اللہ تعالیٰ سے سوال نہ کرے تو اللہ تعالیٰ اس پر غضب فرماتا ہے۔
*(📚 ترمذی، کتاب الدعوات، ۲-باب منہ، ۵ / ۲۴۴، الحدیث: ۳۳۸۴)*
*{📙اِنَّ الَّذِیْنَ یَسْتَكْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِیْ:)*
بیشک وہ جو میری عبادت سے تکبر کرتے ہیں ۔} یاد رہے کہ جن آیات و اَحادیث میں دعا ترک کرنے پر جہنم میں داخلے یا غضبِ الٰہی وغیرہ کی وعیدیں آئی ہیں ، ان میں وہ لوگ مراد ہیں جو مُطْلَقاً دعا کو ترک کر دیتے ہیں (یعنی کچھ بھی ہوجائے، ہم نے دعا نہیں کرنی) یا مَعَاذَاللہ اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ سے بے نیاز سمجھ کر دعا ترک کر دیتے ہیں، اور اسی وجہ سے اس کے حضور گریہ و زاری کرنے سے کتراتے اور پرہیز کرتے ہیں اور یہ صورت صریح کفر اور اللہ تعالیٰ کے دائمی غضب کا باعث ہے،
اللہ تعالیٰ ہمیں کثرت سے دعا مانگنے کی توفیق عطا فرمائے اور دعا مانگنے میں تکبر کرنے سے ہماری حفاظت فرمائے،اٰمین۔
*(چہارم #4:::: فَاِذَا رَكِبُوْا فِی الْفُلْكِ دَعَوُا اللّٰهَ مُخْلِصِیْنَ لَهُ الدِّیْنَﳛ فَلَمَّا نَجّٰىهُمْ اِلَى الْبَرِّ اِذَا هُمْ یُشْرِكُوْنَۙلِیَكْفُرُوْا بِمَاۤ اٰتَیْنٰهُمْ ﳐ وَ لِیَتَمَتَّعُوْاٙ-فَسَوْفَ یَعْلَمُوْنَ؛)*
ترجمۂ : پھر جب لوگ کشتی میں سوار ہوتے ہیں تو الله کو پکارتے ہیں اس حال میں کہ اسی کے لئے دین کو خالص کرتے ہیں پھر جب وہ انہیں خشکی کی طرف بچا کرلاتا ہے تواس وقت شرک کرنے لگتے ہیں ۔ تاکہ ہماری دی ہوئی نعمت کی ناشکری کریں اور تاکہ وہ فائدہ اٹھالیں تو عنقریب جان لیں گے۔
*(📕سورۃ العنکبوت آیت نمبر ۶۵, ۶۶)*
اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ زمانۂ جاہلِیّت کے لوگ بحری سفر کرتے وقت بتوں کوساتھ لے جاتے تھے ،دورانِ سفرجب ہوا مخالف چلتی اور کشتی ڈوب جانے کا خطرہ پیدا ہو جاتا تو وہ لوگ بتوں کو دریا میں پھینک دیتے اور یاربّ یاربّ پکارنے لگتے لیکن امن پانے کے بعد پھر اسی شرک کی طرف لوٹ جاتے ۔ان کی اس حماقت کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا گیا کہ جب کافر لوگ کشتی میں سوار ہوتے ہیں اور سفر کے دوران انہیں ہوا مخالف سمت چلنے کی وجہ سے ڈوبنے کا اندیشہ ہوتا ہے تو اس وقت وہ اپنے شرک اور عناد کے باوجود بتوں کو نہیں پکارتے بلکہ اللہ تعالیٰ کو پکارتے ہیں اور اس وقت ان کا عقیدہ یہ ہوتا ہے کہ اس مصیبت سے صرف اللہ تعالیٰ ہی نجات دے گا ،پھر جب اللہ تعالیٰ انہیں ڈوبنے سے بچا کر خشکی کی طرف لاتا ہے اور ڈوب جانے کا اندیشہ اور پریشانی جاتی رہتی ہے اور انہیں اطمینان حاصل ہوجاتا ہے تواس وقت دوبارہ شرک کرنے لگ جاتے ہیں اور نتیجے کے طور پر وہ شرک کی صورت میں ہماری دی ہوئی نجات والی نعمت کی ناشکری کرتے ہیں تو عنقریب وہ اپنے کردار کا نتیجہ جان لیں گے
*(📘خازن،العنکبوت،تحت الآیۃ:۶۵-۶۶،۳ / ۴۵۶، روح البیان،العنکبوت،تحت الآیۃ:۶۵-۶۶،۶ / ۴۹۳-۴۹۴، ملتقطاً)*
یاد رہے کہ مخلص ایمان والوں کا حال یہ ہوتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کے اخلاص کے ساتھ شکر گزار رہتےہیں اور جب کوئی پریشان ُکن صورتِ حال پیش آتی ہے اور اللہ تعالیٰ اس سے رہائی دیتا ہے تو وہ اس کی اطاعت میں اور زیادہ سرگرم ہو جاتے ہیں ، مگر کافروں کا حال اس کے بالکل برخلاف ہے۔ لیکن افسوس! فی زمانہ مسلمانوں کا حال بھی کافروں کے پیچھے پیچھے ہی چل رہا ہے کہ جب ان پر کوئی مصیبت آتی ہے تو اللہ اللہ کرنے میں مشغول ہو جاتے ہیں اور بڑی عاجزی اور گریہ و زاری کے ساتھ اس کی بارگاہ میں اس مصیبت سے نجات کی دعائیں کرتے ہیں اور جب اللہ تعالیٰ وہ مصیبت ان سے دور کر دیتا ہے تو پھر وہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرنے والی اپنی پرانی رَوِش پر عمل کرنا شروع کر دیتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ہدایت اور عقلِ سلیم عطا فرمائے ،اٰمین۔
*(📗حوالہ : صراط الجنان فی تفسیر القرآن مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)*
مُشرِکِین بُتوں سے اور نبیوں صحابیوں ولیوں سے مدد مانگنے میں فرق ہے دونوں برابر نہیں، مَعاذاللہ دونوں کا مُعامَلہ ہرگز ایک جیسانہیں،معترضین کو بھونکنے سے پہلے سمجھنا چاہیے کہ مُشرِکین کا عقیدہ یہ ہے کہ اللہ نے بُتوں کو اُلُوہِیَّت دے دی (یعنی معبود بنا دیا) ہے ۔نیز وہ بتوں وغیرہ کو سفارشی اور وسیلہ سمجھتے ہیں اور بُت فی الحقیقت ایسے نہیں ہیں۔ اَلْحَمْدُ للہ ہم اہلسنت و جماعت کسی مُقَرّب سے مُقَرّب حتّٰی کہ نبی ﷺ کی بھی اُلُوہِیَّت ( یعنی مستحقِ عبادت ہونے) کے قائل نہیں ہیں ، ہم تو انبیاءِ کرام اولیاءِ کرام علیہم السلام کو اللہ کا بندہ اور اعزازی طور پر اللہ کے اِذن و عطا (یعنی اجازت و عنایت) سے شفیع و وسیلہ اورحاجت روا و مشکل کشا مانتے ہیں۔
*واللہ اعلم بالصواب؛*
ا_________(🧡)__________
*کتبــــہ؛*
*محمد اکبرانصاری ، مانخورد ممبئ انڈیا؛*
*مورخہ؛26/2/2020)*
*❣الحلقةالعلمیہ گروپ❣*
*رابطہ؛📞9167698708)*
ا________(❣)___________
*📌المشتـــہر؛فضل کبیر📌*
*منجانب؛منتظمین الحـــلقةالعـــلمیہ گروپ؛ محمد عقیـــل احمد قــــادری حنفی سورت گجرات انڈیا؛*
ا________(❣)___________