ہفتہ، 9 مئی، 2020

اس طرح نیت ("میری طبیعت نہیں بگڑی تو میرا روزہ ہے ورنہ نہیں") کرنے سے روزے کا کیا حکم ہے؟

0 comments
🔎 *اس طرح نیت ("میری طبیعت نہیں بگڑی تو میرا روزہ ہے ورنہ نہیں") کرنے سے روزے کا کیا حکم ہے؟*🔍

◆ ــــــــــــــــــــ▪ 📝 ▪ــــــــــــــــــــ ◆

*اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ‎*
حضرت ایک مسئلہ حاضر خدمت ہے زحمت اٹھائیں زید کی طبیعت ٹھیک نہیں اور اب زید کہہ رہا ہے کہ میں روزہ نہیں رہوں گا تو اب اس صورت میں زید یہ کہتا (نیت) ہے کہ اگر میری طبیعت نہیں بگڑی تو میرا روزہ ہے ورنہ نہیں، کیا یہ درست ہے روزہ ہو جائے گا؟
*ا•─────────────────────•*
*سائل؛ محمد سلیمان رضا صدیقی، باڑ میڑ راجستھان*
◆ ــــــــــــــــــــ▪ 📝 ▪ــــــــــــــــــــ ◆

*وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ تعالی وبرکاتہ*
*الجواب بعون الملک الوھاب ۔۔۔* 
*اس طرح نیت کرنے سے روزہ نہیں ہوگا، یہ نیت صحیح نہیں ہے، ہاں اگر زید نے ضحوہ کبری سے پہلے روزہ میں رہنے کی نیت کر لی اور کوئی وجہ مانع صوم نہ پایا گیا تھا تو روزہ ہو جائیگا ورنہ نہیں*

*📃حضور صدر الشریعہ بدر الطریقہ علیہ الرحمہ ارشاد فرماتے ہیں ؛* 
🔍یوں نیّت کی کہ کل کہیں دعوت ہوئی تو روزہ نہیں ،اور نہ ہوئی تو روزہ ہے یہ نیّت صحیح نہیں ، بہرحال وہ روزہ دار نہیں 
*(📕بحوالہ؛ ’’الفتاوی الھندیۃ‘‘، کتاب الصوم، الباب الأول في تعریفہ۔۔۔ إلخ، ج۱، ص۱۹۵- حوالہ؛ بہار شریعت جلد اول حصہ پنجم)*

*📝 اگر زید بیمار ہے،مرض بڑھ جانے یا جلد صحت یاب نہ ہونے کا غالب گمان ہے تو زید کو شریعت مطہرہ رخصت دیتی ہے کہ زید اس دن روزہ نہ رکھے بعد میں اسکی قضا کریں غالب گمان مطلب یہ نہیں کہ معمولی سا وہم ہو بلکہ یہ کہ مرض کی ظاہر نشانی پائی جائے یا زید کا ذاتی تجربہ ہو یا کوئی مسلمان تجربہ کار غیر فاسق ڈاکٹر نے روزہ نہ رکھنے کی صلاح دی ہو!* 

*📄حضور صدر الشریعہ بدر الطریقہ علیہ الرحمہ ارشاد فرماتے ہیں ؛* 
مریض کو مرض بڑھ جانے یا دیر میں اچھا ہونے یا تندرست کو بیمار ہو جانے کا گمان غالب ہو یا خادم و خادمہ کو ناقابل برداشت ضعف کا غالب گمان ہو تو ان سب کو اجازت ہے کہ اس دن روزہ نہ رکھیں - ان صورتوں میں غالب گمان کی قید ہے محض وہم ناکافی ہے۔ غالب گمان کی تین صورتیں ہیں ۔اس کی ظاہر نشانی پائی جاتی ہے یا اس شخص کا ذاتی تجربہ ہے یا کسی مسلمان طبیب حاذق مستور یعنی غیر فاسق نے اُس کی خبر دی ہو - آج کل کے اکثر اطبا اگر کافر نہیں تو فاسق ضرور ہیں اور نہ سہی تو حاذق طبیب فی زمانہ نایاب سے ہو رہے ہیں ، ان لوگوں کا کہنا کچھ قابلِ اعتبار نہیں نہ ان کے کہنے پر روزہ افطار کیا جائے۔ ان طبیبوں کو دیکھا جاتا ہے کہ ذرا ذرا سی بیماری میں روزہ کو منع کر دیتے ہیں ، اتنی بھی تمیز نہیں رکھتے کہ کس مرض میں روزہ مُضر ہے کس میں نہیں ۔
*(📘بہار شریعت جلد اول حصہ پنجم)* 

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
*ا•─────────────────────•*
*✒️کتبہ :ابــو حنـــیـــفـــہ محـــمـــد اکـبــــر اشــرفــی رضـوی، مانـخـــورد مـــمـــبـــئـــی*
 *رابطہ نمبر ؛ 9167698708*
*ا•─────────────────────•*
الجواب حق و صواب ✅
*محمد شرف الدین رضوی*
*ا•─────────────────────•*
*https://akbarashrafi.blogspot.com/?m=1*
*ا•─────────────────────•*
*۹ رمضان المبارک، ۱۴۴۱ ھجری ،۳ مئی ۲۰۲۰ عیسوی بروز اتوار*
*ا•─────────────────────•*

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔